عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 42376
جواب نمبر: 42376
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1276-1326/N=1/1434 (۱) یہ حدیث مرسل ہے، اس میں زید بن اسلم کے استاذ: عطاء بن یسار اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی راوی محذوف ہے، لیکن دوسرے طریق سے موصولا مروی ہے اور موصولا ذکر کرنے والے رواة ثقات حفاظ کی جماعت ہے کما قال ابنالبر في التمہید (۵:۱۹) اس لیے حدیث صحیح ہے۔ (۲) احناف کے نزدیک: فإن استیقن أن قد صلی ثلاثا کے معنی ہیں: تعداد رکعات میں شک کی صورت میں اگر تحری کے بعد بھی غلبہ ظن حاصل نہیں ہوا اس لیے اس نے یقین (اقل) پر بنیاد رکھتے ہوئے یہ طے کرلیا کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں تو ایسی صورت میں کھڑے ہوکر ایک رکعت اور پڑھے اور اخیر میں سجدہٴ سہو کرے قال في البذل (۵: ۴۰۴، ۴۰۵، ط: دارالکتب العلمیة بیروت): ویحتمل أن یکون معنی قولہ في روایة یقوب بن عبد الرحمن: فإن استیقن أن قد صلی ثلاثا أنہ فإن بنی علی الیقین وقدر أن قد صلی ثلاثا․․․ إھ اور حدیث میں جس سلام کا ذکر ہے اس سے سجدہٴ سہو سے پہلے والا سلام مراد نہیں ہے بلکہ وہ سلام مراد ہے جو سجدہٴ سہو کے بعد نماز سے نکلنے کے لیے پھیرا جاتا ہے قال في أوجز المسالک (کتاب الصلاة ما یفعل من سلم من رکعتین ساہیا، ۲:۳۰۵، ط دارالقلم دمشق): فالروایات التي ورد فیہا سجودہ صلی اللہ عیلہ وسلم قبل السلام فالمراد فیہا من السلام سلام الانصراف من الصلاة وہو التسلیم الثاني في قولنا وما ورد فیہ السجود بعد السلام فالمراد فیہ سلام الفصل بین الصلاة والسجدتین وأیضا فیہ العمل بکل نوع من روایات القول والفعل․․․ إھ خلاصہ یہ کہ درج بالا مفہوم کے لحاظ سے حدیث یقینا قابل عمل ہے، بلکہ اسی کے مطابق احناف کے یہاں عمل ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند