• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 41810

    عنوان: پہاڑی علاقوں میں مسافتِ سفر کیا ہے؟

    سوال: عرض یہ ہے کہ مسافتِ سفر جو اڑتالیس میل 78کلومیٹربتائی جاتی ہیآیا اس میں میدانی علاقے اور پہاڑی علاقے سب برابر ہیں یا کہ فرق ہے؟جب کہ یہ تو صاف ظاہراورمشاہدے کی بات ہے کہ میدانی علاقے کی بنسبت پہاڑی علاقے میں آدمی کے چلنے کی رفتارمیں واضح فرق ہے، ہماراعلاقہ(مری) پہاڑی علاقہ ہے اور یہ بات اچھی طرح واضح ہے کہ میدانی علاقیکی رفتار اس رفتار سے دگنی ہوتی ہے جو ہمارے علاقے میں ہوتی ہے۔۔ پیدل بھی اور گاڑی میں بھی تو اگر تین منزل کا اعتبار اصل ہے تو وہ تو ہمارے لیے یقیناً اڑتالیس کے بجائے ۲۴ میل پر ہی پوری ہو جائے گی اب ہمارے لیے کیا حکم ہے؟مسافتِ سفر ہمارے لیے کیا ہے؟اور اس کی تحدید کی جائے گی یا نہیں؟مبتلیُ بہ کے سپرد ہو گا معاملہ؟

    جواب نمبر: 41810

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 102-94/N=2/1434 (۱) تا (۲) مسافت سفر شرعی میں صحیح اور مفتی بہ قول کے مطابق اصل تین دن کی مسافت کا اعتبار ہے، فرسخ یا میل وغیرہ کا اعتبار اصل نہیں ہے، لیکن میدانی اور ہموار علاقوں میں ہمارے اکابر نے بزرگوں کی آسانی وسہولت کے لیے 48 میل انگریزی سے اس کی تحدید کو راجح قدرار دیا ہے جس کی مقدار کلومیٹر کے حساب سے سوا ستتر کلو میٹر ہوتی ہے، اور پہاڑی راستہ میں چونکہ چڑھائی ہوتی ہے اور وہ راستہ میدانی راستہ کے بنسبت دیر میں قطع ہوتا ہے اس لیے اس میں ۴۸ میل کا اعتبار نہ ہوگا بلکہ ایک متوسط طاقت وقوت والا آدمی آرام واستراحت اور ضروریات پوری کرنے کے ساتھ تین دن میں جتنی مسافت قطع کرے گا، وہ پہاڑی علاقوں میں سفر شرعی کی مقدار ہوگی۔ اورعوام کی آسانی وسہولت کے لیے بہتر یہ ہے کہ پہاڑی علاقہ کے مستند ومعتبر علما کلومیٹر کے حساب سے مسافت سفر شرعی کی تحدید کردیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند