• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 41273

    عنوان: بدعات و رسومات

    سوال: (۱ )سوال : بندہ عاجز کا سوال یہ ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا اس عقیدے کے ساتھ کہ یہ ہاتھ اٹھانا نہ سنت ہے نہ واجب اور نہ فرض ہے بلکہ مباح ہے ، (۲) اور کبھی کبھار یعنی سال میں شاید ایک مرتبہ یا دو مرتبہ جبکہ کبار علماکرام واولیا عظام موجود ہوں ان سے مصلحتا دعا کی درخواست کی جائے اور ہاتھ اٹھایا جائے یہ سمجھ کر کہ دعا ثابت ہے اور رفع الیدین دعا کے آداب میں سے ہے اور یہ کہ نہ اٹھانا اوفق بالسنہ ہے اور اٹھانا مباح ہے جیسا کہ بیان ہوا کہ ما سکت عنہ فہو عفو کیا یہ ہاتھ اٹھا نا مذکورہ عقیدے کے ساتھ بدعت ہے ( بمعنی احداث فی الدین اور گمراہی و ضلالت ہے او ر اگر ہے تو کیا دلیل ہے جبکہ اس پر کوئی حکم شرعی نہیں لگایا جا رہا )؟

    جواب نمبر: 41273

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 937-922/N=10/1433 دعا میں ہاتھ اٹھانا آداب میں سے ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ (مشکاة شریف: ۱۹۵، ۱۹۶) اور نمازوں کے بعد دعا کرنا بھی مختلف روایات سے ثابت ہے مثلاص ابن السنی رحمہ اللہ کی عمل الیوم واللیلة میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما من عبد یبسط کفیہ في دبر کل صلاة․․ (امداد الفتاوی: ۱/۷۹۶، ۷۹۷)۔ (تفصیل کے لیے رسالہ : النفائس المرغوبة في حکم الدعاء بعد المکتوبة، موٴلفہ حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ اور رسالہ: استحباب الدعوات عقیب الصلوات موٴلفہ حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ (امداد الفتاوی: ۱/۷۹۵-۸۱۶) وغیرہ دیکھیں) اس لیے نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا بلاشبہ جائز ودرست بلکہ مستحب ہے، اس پر بدعت ہونے کا حکم ہرگز درست نہیں۔ (۲) مصلحت کی وضاحت کریں، پھر ان شاء اللہ اس کا جواب دیا جائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند