• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 39392

    عنوان: نماز كی بنا كا مسئلہ

    سوال: (۱) جب امام کا وضو ٹوٹ جائے تو امام اپنے پیچھے سے کسی کو کھڑا کریگا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ بندہ ذرا سائڈ میں یا دوسری صف میں کھڑا ہو تو کیا وہاں سے اسکا ہاتھ پکڑ کر امامت کے لئے کھڑا کر سکتا ہے یا اپنیصرف پیچھے سے ہی ضروری ہے؟ (۲) وہ شخص جسکو امام نے اپنی جگہ کھڑا کیا ہے وہ کہاں سے پڑھنا شروع کریگا ؟مثلا امام سورة فاتحہ میں ۵ ویں آیت میں تھے تو کیا وہ وہیں سے پڑھیگا یا شروع فاتحہ سے ؟ اسی طرح اگر امام کوئی ایسی سورت یا آیت پڑھ رہے تھے جو اس شخص کو یاد نہیں یا یاد بھی ہے تو کیا وہ وہیں سے پڑھیگا جس حرف یا جس آیت سے امام نے چھوڑی تھی دونوں صورتوں کی وضاحت مطلوب ہے؟ (۳) امام وضو کر کے آکر اسکی اقتدا میں کھڑا ہوگا یا واپس اپنی جگہ آیگا؟ اور جب وضو کرنے جائے گا تو اسکا سینہ قبلہ سے پھر جایگا تو کیا پھر بھی وہ نماز ہی میں رہیگا بشرطیکہ اس نے اور کوئی مانع صلاة کام نہ کیا ہو ؟ (۴) اس بیچ میں جو رکعت اسکی نکلی اسکی قضا کس طرح کی جائے گی ؟ اسکو مدرک کہتے ہیں۔ (۵) جب امام نے اس شخص کو آگے بڑھایا تو صف میں جو جگہ خالی ہوئی اسکو خالی رہنے دیں یا مقتدی خود مل جائیں؟

    جواب نمبر: 39392

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1088-227/D=8/1433 (۱) اپنے پیچھے سے ہی خلیفہ بنانا ضروری نہیں؛ بلکہ سائڈ سے یا دوسری صف سے بھی کسی کو خلیفہ بناسکتا ہے، یستفاد مما فی الفتاوی الہندیة: صورة الاستخلاف أن یتأخر مُحدَوْدِبًا ... ویقدم من الصف الذي یلیہ ... ولہ أن یستخلف ما لم یجاوز الصفوف في الصحراء وفي المسجد ما لم یخرج عنہ کذا في التبیین (۱/۹۵، فصل في الاستخلاف، ط: زکریا دیوبند) (۲) اگر خلیفہ کو یاد ہے کہ سورہٴ فاتحہ کی کتنی آیتیں امام نے پڑھی ہیں تو آگے سے پڑھے ورنہ شروع فاتحہ سے پڑھے نیز خلیفہ پر یہ ضروری نہیں کہ اس سورت کو یہ پڑھے جسے امام نے ناقص چھوڑا تھا بلکہ اسے اختیار ہے کہ کوئی بھی سورت پڑھ کر رکوع کرے، نیز خلیفہ کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ اگر امام بقدر واجب قراء ت کرچکا تھا تو اس امام کی جگہ جاکر فوراً رکوع میں چلا جائے۔ (مستفاد فتاویٰ دارالعلوم: ۳/۴۰۳) (۳) امام وضو کرکے آکر خلیفہ کی اقتداء میں نماز ادا کرے گا، سابقہ جگہ پر لوٹ کر آنا ضروری نہیں، بلکہ اگر مقامِ وضو ایسی جگہ ہو جہاں سے اقتدا کرنا شرعاً درست ہوسکتا ہے تو اسی جگہ سے اقتداء کرنا افضل ہے۔ (۴) وضو کے لیے جاتے وقت سینے کا قبلہ سے پھر جانا مفسدِ صلاة نہ بنے گا، ہاں اگر اس کے علاوہ کوئی اور مفسد صلاة امر پایا گیا مثلاً عمدا حدث کرنا یا گفتگو کرنا تو ایسی صورت میں بِنا درست نہیں بلکہ از سرِ نو نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ (۵) اگر وضو کرکے واپس آکر، چھوٹی ہوئی نماز / رکعت ادا کرکے امام (خلیفہ) کے ساتھ شریک ہوسکتا ہے تو اس کو بلا قراء ت پڑھ کر شریک ہوجائے، ورنہ پہلے امام کے ساتھ شریک ہوجائے اور فراغت امام کے بعد چھوٹی ہوئی نماز بلا قراء ت پڑھ لے (حاشیة الطحطاوي علی المراقي، باب ما یفسد الصلاة، وکبیري، فصل فیما تفسد الصلاة) (۶) خالی جگہ کو پر کرلینا بہترہے یستفاد ہما في رد المحتار: إن کان في الصفّ الثاني فرأی فرجة في الأول فمشی إلیہا لم تفسد صلاتہ؛ لأنہ مأمور بالمراصّة، قال علیہ الصلاة والسلام: ”تراصّوا الصفوف“ (۲/۳۱۲، زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند