• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 39389

    عنوان: نماز قصر

    سوال: مفتی صاحب (1) سفر کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے گھر سے؟ یا گاؤں سے؟ قصبہ سے؟ یا ضلع سے؟ یا ریاست سے؟ (2)دلّی ۱ ریاست ہے اگر ہم وہاں سے کہیں کا سفر کریں جیسے بلند شہر جو میرے گھر سے ایک راستے سے ۸۲ کلو میٹر اور دوسرے راستے سے ۷۲ کلو میٹر کی دوری پر ہے تو کیا قصر کرنا ہوگا (3)یا اس کلو میٹر کی شروعات کہاں سے کی جایگی گھر سے یا بورڈر سے ؟ اور اس میں کیا مسئلہ ہوگا چونکہ ۲ راستے ہیں؟ (4) نیز کیا ۷۷ کلو میٹر کا سفر تو قصر نہیں ہوگا؟ پورا سوا ۷۷ ہونا ضروری ہے؟؟ (5)وہاں پہ جب اسکا ۱۰ دن کا قیام ہے تو کبھی ۲ یا ۴ کلو میٹر آگے یا پیچھے کسی کام سے آنا جانا ہوگا تو اس بیچ میں نماز کا بھی وقت ہوگا تو نماز کا اس صورت میں کیا مسئلہ ہوگا؟ چونکہ کبھی شرعی سفر میں ہوگا اور پیچھے جانے کی صورت میں شرعی سفر میں نہیں ہوگا تو اس صورت میں نماز کا کیا مسئلہ ہوگا ؟ (6) ۱۵ دن سے کم میں قصر ہے تو اگر ۱ شخص ۱۵ دن کے سفر میں ہے تو کیا اس پر قصر ہے یا ۱۴ دن تک قصر ہے؟ دن رات کے ساتھ ؟ (7) نیز گھر سے سفر کے لئے نکلا تو ظہر کا وقت شروع ہو گیا تو کیا اب قصر پڑھیں یا ادا کیونکہ سفر شروع ہو گیا ہے؟

    جواب نمبر: 39389

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 590-669/N=9/1433 (۱) آدمی جس آبادی میں ہو اس آبادی کے باہر سے قال في الدر (مع الرد، کتاب الصلاة باب صلاة المسافر: ۲/۵۹۹، ۶۰۰، ط: زکریا دیوبند): من خرج من عمارة موضع إقامتہ من جانب خروجہ وإن لم یخرج من الجانب الآخر.. قاصدًا... إھ (۲) آپ جس راستہ سے بلند شہر کا سفر کریں گے اس راستہ پر جہاں دلی کی آبادی ختم ہوجائے وہاں سے اگر بلند شہر کی آبادی شروع ہونے تک 77.25 کلومیٹر کی مسافت ہے تو آپ شرعاً مسافر ہوں گے اور قصر کریں گے ورنہ نہیں۔ (حوالہ بالا) (۳) جس راستہ سے جائیں اس راستہ پر جہاں دلی کی آبادی ختم ہوجائے وہاں سے (حوالہ بالا)۔ (۴) جی ہاں! پورا 77.25 (سوا ستتر) کلومیٹر ہونا ضروری ہے، اس سے کم میں قصر جائز نہیں کذا فی عامة کتب الفقہ والفتاوی۔ (۵) اوپر ذکر کردہ تفصیل کی روشنی میں اگر آپ مسافر ہوں اور مسافت سفر کے بقدر چل چکے ہوں تو دلی کی آبادی شروع ہونے تک آپ مسافر ہی رہیں گے کیونکہ آبادی سے نکلتے ہی مسافرت کے احکام لاگو ہوجاتے ہیں اور اس وقت تک لاگو رہتے ہیں جب تک مسافر اپنے وطن کی آبادی میں داخل نہ ہوجائے یا کسی شہر یا قصبہ وغیرہ میں کم ازکم پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرلے۔ قال في الدر (مع الرد کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر: ۲/۵۹۹-۶۰۵): من خرج ... صلی الفرض الرباعي رکعتین... حتی یدخل موضع مقامہ إن سار مدة السفر ... أو ینوي... إقامة نصف شہر... بموضع واحد صالح لہا إھ. (۶) سفر خواہ پندرہ دن کا ہو یا اس سے کم یا اس سے زیادہ دنوں کا مسافر جب تک کسی ایک شہر یا قصبہ وغیرہ میں مستقل پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہیں کرے گا، مسافر ہی رہے گا، ہاں اگر کسی بستی میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرلی تو البتہ وہاں مقیم ہوجائے گا۔ (حوالہ بالا نمبر۳) (۷) اگر آپ آبادی سے باہر ہوچکے ہوں تو قصر کریں گے ورنہ نہیں۔ (حوالہ بالا نمبر ۱)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند