عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 39389
جواب نمبر: 39389
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 590-669/N=9/1433 (۱) آدمی جس آبادی میں ہو اس آبادی کے باہر سے قال في الدر (مع الرد، کتاب الصلاة باب صلاة المسافر: ۲/۵۹۹، ۶۰۰، ط: زکریا دیوبند): من خرج من عمارة موضع إقامتہ من جانب خروجہ وإن لم یخرج من الجانب الآخر.. قاصدًا... إھ (۲) آپ جس راستہ سے بلند شہر کا سفر کریں گے اس راستہ پر جہاں دلی کی آبادی ختم ہوجائے وہاں سے اگر بلند شہر کی آبادی شروع ہونے تک 77.25 کلومیٹر کی مسافت ہے تو آپ شرعاً مسافر ہوں گے اور قصر کریں گے ورنہ نہیں۔ (حوالہ بالا) (۳) جس راستہ سے جائیں اس راستہ پر جہاں دلی کی آبادی ختم ہوجائے وہاں سے (حوالہ بالا)۔ (۴) جی ہاں! پورا 77.25 (سوا ستتر) کلومیٹر ہونا ضروری ہے، اس سے کم میں قصر جائز نہیں کذا فی عامة کتب الفقہ والفتاوی۔ (۵) اوپر ذکر کردہ تفصیل کی روشنی میں اگر آپ مسافر ہوں اور مسافت سفر کے بقدر چل چکے ہوں تو دلی کی آبادی شروع ہونے تک آپ مسافر ہی رہیں گے کیونکہ آبادی سے نکلتے ہی مسافرت کے احکام لاگو ہوجاتے ہیں اور اس وقت تک لاگو رہتے ہیں جب تک مسافر اپنے وطن کی آبادی میں داخل نہ ہوجائے یا کسی شہر یا قصبہ وغیرہ میں کم ازکم پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرلے۔ قال في الدر (مع الرد کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر: ۲/۵۹۹-۶۰۵): من خرج ... صلی الفرض الرباعي رکعتین... حتی یدخل موضع مقامہ إن سار مدة السفر ... أو ینوي... إقامة نصف شہر... بموضع واحد صالح لہا إھ. (۶) سفر خواہ پندرہ دن کا ہو یا اس سے کم یا اس سے زیادہ دنوں کا مسافر جب تک کسی ایک شہر یا قصبہ وغیرہ میں مستقل پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہیں کرے گا، مسافر ہی رہے گا، ہاں اگر کسی بستی میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرلی تو البتہ وہاں مقیم ہوجائے گا۔ (حوالہ بالا نمبر۳) (۷) اگر آپ آبادی سے باہر ہوچکے ہوں تو قصر کریں گے ورنہ نہیں۔ (حوالہ بالا نمبر ۱)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند