عنوان: قبلہ مشتبہ ہوجائے تو كیا كرے
سوال: اگر کوئی شخص نماز ایسی جگہ پڑھے جہاں قبلہ کا صحیح سمت پتا نہ چل سکے اور اس نے اندازہ کر کے جہاں دل نے گواہی دی اس طرف منہ کر کے نماز پڑھ لی اس کے بعد جب دوسری نماز کا وقت آیاتو ایک شخص کہنے لگا کہ میں نے سورج کو اس طرف ڈوبتے ہوئے دیکھا ہے تو اب اس طرف منہ کر کے نماز پڑھ لی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ نماز جو میں نے پہلے مَثَلاً عصرکی پڑھی تھی اور اسکا وقت بھی ختم ہو گیا تو کیا اس نماز کو لوٹانا ضروری ہے یا نہیں؟
جواب نمبر: 3818001-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 716-716/M=5/1433
آپ کی دونوں نمازیں درست ہیں، آپ نے جو نماز پہلے پڑھی وہ بھی درست ہے کیوں کہ جس شخص پر قبلہ مشتبہ ہوجائے تو جہت تحری اس شخص کا قبلہ ہے: وإن اشتبہت علیہ القبلة ولیس بحضرتہ من یسألہ عنہا اجتہد وصلی فإن علم أنہ اخ۔أ بعد ما صلی لا یعیدہا․ (الہندیة: ۱/۶۴)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند