• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 32571

    عنوان: جو نماز کے آداب ہو ملحوظ خاطر رکھ کر نہ پڑھی جاتی ہوتو اس کے بارے میں حدیث ہے جس کا مفہوم ہے کہ ایسی نماز نمازی کے منہ لپیٹ کر مار دی جاتی ہے۔

    سوال: میرے ایک دوست کہنا ہے کہ نماز کا قبول ہونا یا نہ ہونا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ میں نے کہا کہ صحیح بات ہے ، لیکن ایسی نماز جس میں نہ رکوع صحیح ہو ، نہ سجدہ صحیح ہو، اور جو نماز کے آداب ہو ملحوظ خاطر رکھ کر نہ پڑھی جاتی ہوتو اس کے بارے میں حدیث ہے جس کا مفہوم ہے کہ ایسی نماز نمازی کے منہ لپیٹ کر مار دی جاتی ہے۔ اس بات سے اس کوتفاق نہیں ہے۔ براہ کرم، ا س پر روشنی ڈالیں۔

    جواب نمبر: 32571

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 970=383-7/1432 آپ کی بات صحیح اور درست ہے، نماز کا قبول ہونا یا نہ ہونا یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، البتہ اگر نماز خشوع خضوع اور آداب کی رعایت کرتے ہوئے ادا کی جائے تو قبولیت کی امید زیادہ رہتی ہے، قرآن شریف میں خشوع وخضوع سے نماز پڑھنے والوں کے لیے خوش خبری آئی ہے اور بے خبری وبے توجہی سے نماز پڑھنے والوں کے لیے وعیدیں آئی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوْنَo“ بے شک کامیابی اور فلاح کو پہنچ گئے وہ مومن جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں دوسری جگہ ہے: ”وَاِنَّہَا لَکَبِیْرَةٌ اِلاَّ عَلَی الْخَاشِعِیْنَ“ بے شک نماز دشوار ہے مگر جن کے دلوں میں :شوع ہے، ان پر کچھ بھی دشوار نہیں۔ نیز قرآن شریف میں جہاں جہاں اقامت صلاة آیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے رکوع سجدہ کو اچھی طرح #ادا کیا جائے، حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز کا قائم کرنا اس کے اوقات کی حفاظت رکھنا اور رکوع کا اور سجدے کا اچھی طرح ادا کرنا ہے۔ اس کے بالمقابل بے توجیہ سے نماز پڑھنے والوں کے بارے میں ”فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّیْنَo الَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُونَo الَّذِیْنَ ہُمْ یُرَآئُوْنَo“ بڑي خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں جو ایسے ہیں کہ دکھلاوا کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں بھی خشوع وخضوع سے نماز پڑھنے والوں کے لیے فضائل اور بلاخشوع نماز پڑھنے والوں کے لیے وعیدیں آئی ہیں، ایک حدیث میں ہے: ”حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص نمازوں کو اپنے وقت پر پڑھے، وضو بھی اچھی طرح کرے خشوع خضوع سے بھی پڑھے، کھڑا بھی پورے وقار سے ہو پھر اسی طرح رکوع سجدہ بھی اطمینان سے کرے، غرض ہرچیز کو اچھی طرح ادا کرے تو وہ نماز نہایت روشن چمک دار بن کر جاتی ہے اور نمازی کو دعا دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہ تیری بھی ایسی ہی حفاظت کرے جیسی تونے میری حفاظت کی۔ اور جو شخص نماز کو بری طرح سے پڑھے وقت کو بھی ٹال دے وضو بھی اچھی طرح نہ کرے رکوع سجدہ بھی اچھی طرح نہ کرے تو وہ نماز بری صورت سے سیاہ رنگ میں بد دعاء دیتی ہوئی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے بھی ایسا ہی برباد کرے جیسا تو نے مجھے ضائع کیا، اس کے بعد وہ نماز پرانے کپڑے کی طرح سے لپیٹ کر نمازی کے منھ پر ماردی جاتی ہے“۔ (رواہ الطبرانی فی الاوسط کذا فی الترغیب والدر المنثور) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آدمی نماز سے فارغ ہوجاتا ہے اور اس کے لیے ثواب کا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے، اسی طرح بعض کے لیے نواں حصہ بعض کے لیے آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھائی، تہائی، آدھا حصہ لکھا جاتا ہے“ (ابوداوٴد) یعنی جس درجہ کا خشوع اور اخلاص نماز میں ہوتا ہے اتنی ہی مقدار اجر وثواب کی ملتی ہے، حتی کہ بعض کو پورے اجر کا دسواں حصہ ملتا ہے اگر اس کے موافق خشوع خضوع ہو اور بعض کو آدھا مل جاتا ہے اور اسی طرح دسویں سے کم اور آدھے سے زیادہ بھی مل جاتا ہے، حتی کہ بعض کو پورا پورا اجر مل جاتا ہے اور بعض کو بالکل بھی نہیں ملتا کہ وہ اس قابل ہی نہیں ہوتی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند