عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 31690
جواب نمبر: 31690
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(م): 810=810-5/1432 یہ سوال آپ کے سطحی مطالعہ کا نتیجہ ہے یا کسی غیرمقلد کی ذہن سازی کا ثمرہ، شاید کسی غیرمقلد کی کوئی کتاب آپ کے ہاتھ لگ گئی ہے، اگر تمام روایات پر آپ کی نظر ہوتی یا کسی مستند ومعتبر استاد سے سبقًا سبقًا حدیث کا علم حاصل کیا ہوتا تو یہ اشکال ہی ذہن میں نہ آتا، معلوم نہیں آپ کی علمی لیاقت کیا ہے؟ عربی بھی سمجھتے ہیں یا صرف اردو کتب تک مطالعہ محدود ہے، احناف کا مسلک الحمدللہ روایت ودرایت دونوں کے مطابق ہے، دیکھئے نسائی شریف ہی کی روایات میں جلوس کی کیفیت ان الفاظ میں مذکور ہے: أخبرنا قتیبة بن سعید قال حدثنا اللثا عن یحیی عن القاسم بن محمد عن عبد اللہ بن عمر عن أبیہ أنہ قال: إن من سنة الصلاة أن تُضجع رِجلکم الیُسری وتُنصب الیُمنی․ اور ایک روایت میں ہے: من سنة الصلاة أن تنصب القدم الیمنی واستقبالہا بأصابعہا القبلة والجلوس علی الیُسری، اسی طرح حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت میں صاف موجود ہے: إذا جلس في الرکعتین أضجع الیُسری ونصب الیمنی․․ یہ تمام روایات نسائی شریف جلد: ۱/۱۷۳، ط: دیوبند پر موجود ہیں، آپ لوگ ان احادیث پر کیوں عمل نہیں کرتے؟ تورک والی جو حدیث آپ نے پیش کی ہے وہ کبرسنی اور ضعف پر محمول ہے، اسی طرح عورتوں کے حق میں ہے، کیوں کہ متورکةً جلوس میں ستر زیادہ ہے اور عورتوں کا معاملہ ستر پر مبنی ہے، وحدیث أبي حمید محمول علی حال الکبر والضعف، وہذا في حق الرجل فأما المرأة فإنہا تقعد کأستر ما یکون لہا، فتجلس متوکرة لأن مراعاة فرض الستر أولی من مراعاة سنة القعدة (بدائع الصنائع: ۱/۴۹۶)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند