عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 30727
جواب نمبر: 30727
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 501=114-4/1432 (۱) حنفیہ کے نزدیک وتر کی تین رکعت ہے ایک سلام کے ساتھ حنفیہ کی دلیل یہ ہے عن عائشة رضي اللہ عنہا ”أن رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وسلم کان لا یسلم في رکعتي الوتر“ رواہ النسائي، وأخرجہ الحاکم في المستدرک بلفظ ”قالت: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یسلم في الرکعتین الأولیین من الوتر“ وقال ہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین واقرہ علیہ الذہبي في تلخیصہ وقال علی شرطہما، وعنہا قالت: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یسلم إلا في آخرہن أخرجہ الحاکم (إعلاء السنن: ۶/۲۳) حنفیہ کے نزدیک تیسری رکعت میں سورہٴ فاتحہ اور سورہ کی تلاوت کے بعد اللہ اکبر کہہ کر پھر قنوت پڑھنا چاہیے، اس کی دلیل یہ حدیث ہے: عن أبي ابن کعب أن رسول اللہ صلی اللہ عیہ وسلم کان یوتر بثلاث رکعات کان یقرأ في الأول ”سبح اسم ربک الأعلی“ وفي الثانیة: ”قل یا أیہا الکافرون“ وفي الثالثة: ”قل ہو اللہ أحد“ ویقنت قبل الرکوع․ رواہ النسائی (إعلاء السنن: ۶/۵۸) قنوت کے لیے رفع یدین کرنا اور تکبیر کہنا بھی ثابت ہے، تفصیل کے لیے اعلاء السنن کا مطالعہ کریں۔ (۲) سجدہ کے وقت تشہد پڑھنا پھر سلام پھیرنا پھر تشہد پڑھنا مندرجہ ذیل حدیث سے ثابت ہے: عن عمران بن حصین ”عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم صلی بہم فسہا فسجد سجدتین ثم تشہد ثم سلم․ رواہ الترمذي وقال حسن غریب․ وأبوداوٴد سکت عنہ، وفي البخاري: رواہ ابن حبان في صحیحہ والحاکم في مستدرکہ وقال الحاکم صحیح علی شرط الشیخین، وعن أبي عبیدة قال قال عبد اللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ ”إذا قام أحدکم في قعود أو قعد في قیام أو سلم في الرکعتین ثم لیسلم ثم لیسجد سجدتین یتشہد فیہما ویسلم․ أخرجہ سحنون في المدونة الکبری․ (إعلاء السنن: ۶/۱۴۱-۱۴۳)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند