• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 29092

    عنوان: میں پرانی دہلی سے ہوں ۔ ہمارے یہاں غیر مقلدین نے اس قدر فتنہ پھیلا رکھا ہے کہ ہمارے نوجوان دوستوں کو کہتے ہیں کہ رفع یدین کرنے کی 400/ احادیث ہیں ، جو فضائل اعمال پر عمل کرلے وہ دوزخی ہے ، رشید احمد گنگوہی نے نبوت کا دعوی کیا وغیرہ ۔ اس طرح ہمارے ساتھیوں کو پکڑ کر ان کو بہکاتے ہیں ۔ براہ کرم، ہماری رہنائی فرمائیں۔ 

    سوال: میں پرانی دہلی سے ہوں ۔ ہمارے یہاں غیر مقلدین نے اس قدر فتنہ پھیلا رکھا ہے کہ ہمارے نوجوان دوستوں کو کہتے ہیں کہ رفع یدین کرنے کی 400/ احادیث ہیں ، جو فضائل اعمال پر عمل کرلے وہ دوزخی ہے ، رشید احمد گنگوہی نے نبوت کا دعوی کیا وغیرہ ۔ اس طرح ہمارے ساتھیوں کو پکڑ کر ان کو بہکاتے ہیں ۔ براہ کرم، ہماری رہنائی فرمائیں۔ 

    جواب نمبر: 29092

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 247=76-2/1432

    (۱) رفع یدین کا اختلاف فرض واجب کا اختلاف نہیں ہے، بلکہ استحباب اور عدم استحباب کا ہے، دونوں قسم کی احادیث موجود ہیں، ترک رفع یدین کے سلسلے میں بہت سی احادیث مروی ہیں، چنانچہ مسلم شریف میں ہے: عن جابر بن سمرة قال خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال مالي أراکم رافعي أیدیکم کأنہا أذناب خیل شمس أسکنوا في الصلاة إلخ (۱/۱۸۱) ابوداوٴد (۱/۱۴۳) اسی طرح ارشاد خداوندی ﴿قُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ﴾ سے بھی تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین کا خلافِ اولیٰ ہونا ظاہر ہے، ترمذی شریف میں ہے: ”عن علقمة قال قال عبد اللہ ابن مسعود ألا أصلي بکم صلاة رسول اللہ فصلّی فلم یرفع یدیہ إلا في أول مرة“ (۱/۵۹) رجالہ رجال مسلم، شرح معانی الآثار میں ہے: ”عن عبد اللہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ کان یرفع یدیہ في أول تکبیرة ثم لا یعود، وإسنادہ قوي“ ابن عباس کی حدیث ہے: ”لا ترفع الأیدي إلا في سبع مواطن حین یفتتح الصلاة وحین یدخل المسجد الحرام فینظر إلی البیت وحین یقوم علی الصفا وحین یقوم علی المروة وحین یقف مع الناس عشیة عرفة وبجمع والمقامین حین یرمي الجمرة“، معجم طبراني کبیر رقم الحدیث (۱۹۰۴) خبر رفع الیدین للإمام البخاری: ۱۴۳․ ان تمام احادیث کی وجہ سے رفع یدین کی روایات مرجوح ہیں، بلکہ بعض لحاظ سے منسوخ ہیں، لہٰذا ترک رفع والی روایات پر عمل پیرا ہونا راجح ہے، غیرمقلدین کا ترک رفع پر عمل کرنے والے کو اس سے ہٹانا درست نہیں، بلکہ مذموم ہے، رہی یہ بات کہ احادیث رفع یدین چار سو صحابہٴ کرام سے مروی ہے، یہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے، چنانچہ صاحب نیل الفرقدین لکھتے ہیں: ”وما قالہ الفیروز آبادی في سفر السعادة: قد صح في ہذا الباب أربع مائة خبر وأثر إھ فباطل لا أصل لہ“․
    (۲) یہ کہنا کہ ”فضائل اعمال پر جو عمل کرے وہ دوزخی ہے، ایسا کہنے والے کو خود اپنے ہی ایمان کی خبر لینی چاہیے، کیونکہ فضائل اعمال احادیث نبویہ پر مشتمل ہے، تو کیا جو حدیث پر عمل کرے وہ دوزخی ہے، اگرچہ کچھ احادیث اس میں ضعیف بھی ہیں لیکن ضعیف احادیث بھی حدیث ہی ہوتی ہیں، وہ باب فضائل میں معمول بہا ہوتی ہیں، اس کا انکار موجب وبال ہے۔
    (۳) مولانا رشید احمد صاحب کے بارے میں یہ کہنا کہ انھوں نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا سراسر بہتان ہے۔ ”سبحانک ہذا بہتان عظیم“ کسی بھی بات کے کہنے سے پہلے یہ خیال کرنا چاہیے کہ ہمارے اوپر دو نگراں مقرر ہیں، قرآن کریم میں ہے: ﴿وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ کِرَامًا کَاتِبِیْن﴾ مولانا رشید احمد کے بارے میں یہ کہنا سراسر بہتان ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند