• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 25266

    عنوان: سوال یہ ہے کہ کیا رفع یدین جائزہے یا نہیں؟میں نے اپنی مسجد کے امام صاحب سے پوچھاتھا پر میں مطمئن نہیں ہوں؟

    سوال: سوال یہ ہے کہ کیا رفع یدین جائزہے یا نہیں؟میں نے اپنی مسجد کے امام صاحب سے پوچھاتھا پر میں مطمئن نہیں ہوں؟

    جواب نمبر: 25266

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 1377=348-10/1431

    تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا متفق علیہ مسئلہ ہے، لیکن اس کے بعد رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت اور تشہد کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو اٹھانا مختلف فیہ ہے، احناف کے نزدیک ان مواضع میں نہ اٹھانا افضل اور بہتر ہے؛ کیوں کہ عندالاحناف رفع یدین کی احادیث منسوخ ہوگئی ہیں، جیسا کہ احادیث کریمہ سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام نے رفع یدین کو ترک کردیا تھا اور صرف نیت باندھتے وقت ہاتھوں کو اٹھاتے تھے۔ چنانچہ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمھیں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاوٴں؟ انھوں نے پڑھائی تو صرف پہلی مرتبہ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا: عن علقمة قال: قال عبد اللہ بن مسعود ألا أصلي بکم صلاة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فصلّی فلم یرفع یدیہ إلا في أول مرة (ترمذي: ۱/۳۵، ابواب الصلاة) علامہ ابن حزم نے المحلی میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے، اسکے علاوہ امام احمد بن حنبل، دارقطنی، ابن قطان، ابن تیمیہ اورامام نسائی کے نزدیک بھی اس کی صحت مسلّم ہے۔ یہی روایت ابوداوٴد، نسائی، شرح معانی الآثار میں بھی متعدد طریق سے مروی ہے۔
    اس کے علاوہ حضرت براء بن عازب، عبد اللہ بن عمر، ابن عباس، ابوہریرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی متعدد احادیث مروی ہیں، جن میں یہ صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف شروع نماز میں رفع یدین کرتے تھے۔ اس لیے عند الاحناف رفع یدین رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت اور تشہد کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت منسوخ ہے اور نہ کرنا اولیٰ افضل ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند