عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 24901
جواب نمبر: 24901
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(تل): 1362=408-9/1431
حنفیہ کا راجح اور مفتی بہ قول یہی ہے کہ دو سلاموں کے ساتھ وتر پڑھنے والے کے پیچھے حنفی شخص کی نماز وتر صحیح نہیں ہوتی، کیونکہ درمیان میں قاطع صلاة امر یعنی سلام کرنا پالیا گیا، البتہ مسلک حنفی کے طبقہ رابعہ کے مشہور ترین فقیہ حضرت امام ابوبکر رازی الجصاص اور علامہ ابن وہبان نے فرمایا کہ حنفی شخص کی نماز وتر ایسے امام کے پیچھے جو دو سلاموں سے نماز پڑھاتا ہو صحیح اور درست ہوجاتی ہے، کیونکہ یہ مسئلہ مجتہد فیہ ہے، فمذہب الحنیفة أنہ لا وتر عندہم إلا بثلاث رکعات بتشہدین وتسلیم نعم لو اقتدی حنفی بشافعي في الوتر وسلم ذالک الشافعي الإمام علی الشفع الأول علی وفق مذہبہ ثم أتم الوتر صح وتر الحنفي عند أبي بکر الرازي وابن وہبان (معارف السنن) بوقت ضرورت قول غیرمشہور پر عمل کی گنجائش ہوتی ہے اور حجاز مقدس کی ضرورت سب کے سامنے واضح ہے، پس حضرت امام ابوبکر رازی رحمہ اللہ اور علامہ ابن وہبان کی رائے کے مطابق حنفی کے لیے وتر میں وہاں کے امام کے پیچھے اقتدا کرنا صحیح ہوجائے گا، اور جب امام دو رکعت پر سلام پھیر کر ایک رکعت کے ساتھ تکمیل کرے تو حنفی سلام نہ پھیرے اور اس کے ساتھ وتر کی بقیہ رکعت بھی پڑھ لے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند