• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 20693

    عنوان:

    کیا امامت کے لیے کسی خاندان کو کوئی فضیلت حاصل ہے، مثلاًاگر کسی گاؤں میں بہت سارے خاندان بستے ہوں جیسے سید، عباسی، چودھری، مستری، نائی یا وہ لوگ جن کی ہمارے علاقہ میں اقلیت ہے اور یہ لوگ کمزور ہوتے ہیں، اوران لوگوں کو سید کے علاوہ عباسی لوگ رشتہ نہیں دیتے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جس آدمی کو ہم حقیر جانیں اور اپنی بیٹی کا رشتہ اس کو نہ دے سکیں تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ اگر ایسا کوئی مسئلہ موجود ہے تو کیا یہ شرط مسافر نمازیوں کے لیے ہے یا مستقل امام کے لیے بھی ہے؟ اور کیا ایسے لوگ اگر حافظ قرآن یا عالم بن جائیں تو کیا وہ امامت نہیں کروائیں گے؟ از روئے شرع رہنمائی فرما دیں کہ کسی صورت امامت کی شریعت میں خاندان کا بھی عمل دخل ہوتا ہے؟

    سوال:

    کیا امامت کے لیے کسی خاندان کو کوئی فضیلت حاصل ہے، مثلاًاگر کسی گاؤں میں بہت سارے خاندان بستے ہوں جیسے سید، عباسی، چودھری، مستری، نائی یا وہ لوگ جن کی ہمارے علاقہ میں اقلیت ہے اور یہ لوگ کمزور ہوتے ہیں، اوران لوگوں کو سید کے علاوہ عباسی لوگ رشتہ نہیں دیتے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جس آدمی کو ہم حقیر جانیں اور اپنی بیٹی کا رشتہ اس کو نہ دے سکیں تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ اگر ایسا کوئی مسئلہ موجود ہے تو کیا یہ شرط مسافر نمازیوں کے لیے ہے یا مستقل امام کے لیے بھی ہے؟ اور کیا ایسے لوگ اگر حافظ قرآن یا عالم بن جائیں تو کیا وہ امامت نہیں کروائیں گے؟ از روئے شرع رہنمائی فرما دیں کہ کسی صورت امامت کی شریعت میں خاندان کا بھی عمل دخل ہوتا ہے؟

    جواب نمبر: 20693

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب): 488=414-4/1431

     

    امامت کا سب سے زیادہ حق دار وہ شخص ہے جو عالم ہو حافظ وقاری ہو۔ متقی ہیزگار ہو نماز کے مسائل سے واقفیت رکھتا ہو۔ خواہ وہ کسی ذات برادری سے تعلق رکھتا ہو۔ اللہ کے نزدیک سب سے باعزت وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ دین دار اور متقی وپرہیزگار ہو۔ علم دین کی فضیلت تو اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ عالم دین جو شخص ہوجاتا ہے اس کا مرتبہ جاہل سید سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے، اس لیے خاندان او رذات برادری کو امامت کے اندر نہ دیکھنا چاہیے بلکہ علم وتقویٰ اور دین داری کو دیکھنا چاہیے اور اس کو امام بنانا چاہیے۔ کسی مومن کو حقیر وذلیل سمجھنا بڑے گناہ کی بات ہے، ہرمومن باعزت ہے، ہمیں اللہ نے مختلف قبیلوں میں اس لیے بانٹا ہے تاکہ ہم ایک دوسرے کو شناخت کرسکیں۔ ذلیل وشریف سمجھنے کے لیے نہیں بنایا ہے: وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند