• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 179762

    عنوان:

    اگر وطن اصلی میں سکونت ورہائش کا ارادہ بالکل ختم کردیا جائے تو محض زمین وجائداد سے وہ وطن اصلی باقی نہیں رہے گا

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس سلسلے میں کہ ہم نے پندرہ سال قبل اپنے آبائی وطن کو ترک کر دیاہے اور ہم اپنے والدین بیوی بچوں سمیت تھانے مہاراشٹر میں مقیم ہیں یہاں ہمارا ذاتی مکان بھی ہے اورعزم مصمم ہے کہ آئندہ ہم اپنے وطن (جھگڑوا دربھنگہ) میں سکونت اختیار نہیں کریں گے لیکن ہماری زمین اور جائیداد وطن اصلی (جھگڑوا دربھنگہ )میں اب بھی موجود ہے جو ہمارے دادا نے وراثت میں چھوڑا ہے دریافت طلب امر یہ ہے کہ ہر دو سال یا تین سال میں وطن کا سفر ہوتا ہے بعض دفعہ ہفتہ عشرہ کا قیام ہوتاہے تو اس صورت میں اپنے وطن اصلی میں قیام کے دوران نمازوں کا کیا حکم ہوگا؟ کیا قصر کریں گے یا اتمام؟

    جواب نمبر: 179762

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:12-11/N=2/1442

     محض زمین وجائداد یا گھر مکان سے کوئی جگہ نہ وطن اصلی ہوتی ہے اور نہ باقی رہتی ہے؛ بلکہ اصل بنیادی چیز مستقل رہائش وسکونت کا عزم وارادہ ہے؛ لہٰذا صورت مسئولہ آپ کا سابقہ وطن اصلی(جھگڑوا، در بھنگہ) اب آپ کا وطن اصلی نہیں ہے (امداد الفتاوی، ۱: ۵۸۴، ۵۸۵، سوال: ۵۱۲، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، فتاوی محمودیہ، ۷: ۴۹۲، ۴۹۳، سوال: ۳۵۸۹، مطبوعہ: ادارہ صدیق، ڈابھیل)؛ لہٰذا اگر آپ سفر شرعی کرکے پندرہ دن سے کم قیام کے لیے جھگڑوا پہنچتے ہیں تو آپ وہاں مسافر ہی رہیں گے، مقیم نہیں ہوں گے اور ۴/ رکعت والی فرض نمازوں میں (مسافر امام کی اقتدا میں یا تنہا یا خود امام ہونے کی صورت میں) قصر کریں گے، اتمام نہیں۔

    (الوطن الأصلي) …(یبطل بمثلہ) إذا لم یبق لہ بالأول أھل؛ فلو بقي لم یبطل؛ بل یتم فیھما (لا غیر) (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ۲: ۶۱۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۴: ، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”إذا لم یبق لہ بالأول أھل“:أي: وإن بقي لہ فیہ عقار۔ قال في النھر(۱: ۳۴۹، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت): ولو نقل أھلہ ومتاعہ ولہ دور في البلد لا تبقی وطناً لہ، وقیل: تبقی کذا في المحیط وغیرہ (رد المحتار)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند