• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 176628

    عنوان: مماتی کی اقتدا میں نماز کا حکم اور جو نمازیں پڑھی گئیں، اُن کا حکم

    سوال: مجرا نام عدنان ہے اور میرا سوال یہ ہے کہ کیا مماتی کے پیچھے نماز ہوتی ہے؟ میں نے کافی نمازیں پڑھی ہے ان کے پیچھے اگر نہیں ہوتی تو اب کیا کروں؟

    جواب نمبر: 176628

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:460-415/N=6/1441

    (۱، ۲): مماتی فرقہ: بنیادی طور پر عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتا ہے، یعنی: حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ؛ بلکہ تمام انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کے اجساد مطہرہ کو وفات کے بعد ان کی قبروں میں بہ تعلق روح حیات حاصل نہیں ہے، ان کا جسم محض بے جان اور مردہ ہے، حیات صرف ان کی ارواح کو حاصل ہے اور ان کی ارواح کا اجساد مطہرہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یعنی:برزخ میں ان کے لیے محض روحانی حیات ہے، جسمانی حیات نہیں ہے۔اور یہ فرقہ انکار حیات کی بنیاد پر دیگر بعض ایسے عقائد کا بھی حامل وقائل ہے، جو اہل السنة والجماعة کے مسلک کے خلاف ہیں، جیسے: حضرت اقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ پر جو سلام پیش کیا جاتا ہے، وہ بھی آپ علیہ السلام براہ راست سماعت نہیں فرماتے ؛ بلکہ فرشتوں کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا جاتا ہے ، آپ سے دعا اور سفارش کی درخواست کرنا غلط ہے، دعا وغیرہ میں کسی کا وسیلہ اختیار کرنا شرک ، بدعت قبیحہ اور حرام وناجائز ہے۔ قبر میں میت کو کوئی عذاب وثواب نہیں ہوتا، عذاب وثواب کا تعلق صرف روح سے ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ؛ اس لیے یہ فرقہ گمراہ اور اہل السنة والجماعة سے خارج ہے اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے؛ لہٰذا ایسے لوگوں کی اقتدا میں نماز نہ پڑھی جائے؛ البتہ جو نمازیں پڑھی جاچکی ہیں، انھیں لوٹانے کی ضرورت نہیں۔

    ویکرہ… إمامة …مبتدع أي:صاحب بدعة،وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شہبة……لا یکفر بہا …،وإن أنکر بعض ما علم من الدین ضرورة کفر بہا…فلا یصح الاقتداء بہ أصلا (الدر المختار مع الرد،کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲:۲۹۸-۳۰۱، ط مکتبة زکریا دیوبند)،فھو- أي:الفاسق- کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال بل مشی في شرح المنیة علی أن روایة کراھة تقدیمہ کراھة تحریم لما ذکرنا (رد المحتار، ۲: ۲۹۹)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند