عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 176024
جواب نمبر: 176024
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:415-63/sd=5/1441
اگر منشا سوال یہ ہے کہ کیا عورتیں باہم جماعت سے نماز اداء کرسکتی ہیں جس میں کوئی عورت امام رہے، تو جاننا چاہیے کہ عورتوں کی جماعت مکروہ تحریمی ہے۔ قال الحصکفی: و یکرہ تحریما جماعة النساء و لو فی التراویح۔ قال ابن عابدین : قولہ: (ولو فی التراویح) أفاد أن الکراھة فی کل ما تشرع فیہ جماعة الرجال فرضا أو نفلا۔ ( الدر المختار مع رد المحتار: ۳۰۵/۲، کتاب الصلاة، باب الامامة، ط: زکریا، دیوبند ) اور اگر منشا سوال یہ ہے کہ کیا عورتیں مسجد میں جماعت سے نماز اداء کرسکتی ہیں؟ تو اس کا حکم بھی یہ ہے کہ عورتوں کا جماعت سے نماز اداء کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلنا مکروہ ہے، عورتوں کے لیے جماعت سے نماز پڑھنا نہ ضروری ہے اور نہ اس میں کوئی فضیلت ہے،ان کے لیے فضیلت گھر ہی میں نماز پڑھنے میں ہے ۔
قال الحصکفی: یکرہ حضورھن الجماعة ۔۔۔مطلقا ولو عجوزا لیلا علی المذھب المفتی بہ الخ ۔ ( الدر المختار مع رد المحتار: ۳۰۷/۲، باب الامامة، ط: زکریا، دیوبند ) قال الشرنبلالی:ولا یحضرن الجماعات لما فیہ من الفتنة والمخالفة۔قال الطحطاوی :"ولا یحضرون الجماعات" لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: "صلاة المرأة فی بیتہا أفضل من صلاتہا فی حجرتہا وصلاتہا فی مخدعہا أفضل من صلاتہا فی بیتہا" اہ فالأفضل لہا ما کان أستر لہا لا فرق بین الفرائض وغیرہا کالتراویح۔۔۔قولہ:"والمخالفة" أی مخالفة الأمر لأن اللہ تعالی أمرہن بالقرار فی البیوت فقال تعالی: {وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ} (الأحزاب: ۳۳) وقال صلی اللہ علیہ وسلم: "بیوتہن خیر لہن لو کن یعلمن"۔(حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح:۳۰۴/۱، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند