عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 174985
جواب نمبر: 174985
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:263-219/N=4/1441
(۱، ۲): جب آپ کی جائے ملازمت، وطن سے ۱۵۰/ کلو میٹر کی دوری پر ہے اور آپ ہر ہفتے صرف پانچ، چھ دن کے لیے وہاں جاتے ہیں پھر وطن واپس آجاتے ہیں تو آپ جائے ملازمت میں قیام کے دوران اکیلے یا مسافر کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی صورت میں قصر ہی کریں گے، اتمام نہیں کریں گے اگرچہ وہاں قیام کے دوران آپ کے کھانے پینے وغیرہ کا معقول انتظام رہتا ہو (امداد المفتین، ص: ۳۲۱، ۳۲۲، سوال: ۲۵۱، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی، فتاوی محمودیہ ۷:۴۹۱ - ۴۹۴، سوال: ۳۵۸۸- ۳۵۹۱،مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل، فتاوی رحیمیہ جدید، ۵: ۱۷۷، سوال: ۲۲۵، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی، وغیرہ )۔ اور جب آپ وطن(علی گڈھ) واپس پہنچیں گے تو اگرچہ وطن میں ایک یا دو دن ہی کا قیام ہو تب بھی آپ وہاں اتمام کریں گے۔
فالوطن الأصلي ینتقض بمثلہ لا غیر، وھو أن یتوطن الإنسان في بلدة أخری وینقل الأھل إلیہا من بلدتہ فیخرج الأول من أن یکون وطناً أصلیاً لہ حتی لو دخل فیہ مسافراً لا تصیر صلاتہ أربعاً (بدائع الصنائع، ۱: ۴۹۸، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، ویبطل وطن الإقامة بمثلہ وبالوطن الأصلي وبإنشاء السفر، والأصل أن الشیء یبطل بمثلہ وبما فوقہ لا بما دونہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر ۲: ۶۱۴، ۶۱۵،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، من خرج من عمارة موضع إقامتہ قاصداً مسیرة ثلاثة أیام ولیالیھا ……صلی الفرض الرباعي رکعتین …حتی یدخل موضع مقامہ أو ینوي إقامہ نصف شھر بموضع صالح لھا فیقصر إن نوی في أقل منہ أو …بموضعین مستقلین (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ۲: ۵۹۹- ۶۰۶)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند