• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 174448

    عنوان: کوئی حنفی عالم شوافع کو نماز پڑھاتاہے تو فجر کی نماز میں قنوت پڑھ سکتا ہے ہے یا نہیں؟

    سوال: کوئی حنفی عالم شوافع کو نماز پڑھاتاہے تو فجر کی نماز میں قنوت پڑھ سکتا ہے ہے یا نہیں؟ پڑھلے تو نماز ہوجا? گییا نہیں یا کونسی صورت اختیار کی جا? ؟ شکریہ

    جواب نمبر: 174448

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:56-54T/sn=3/1441

    احناف کے نزدیک صرف کسی اہم پریشانی ومصیبت کے موقع پر نماز فجر میں قنوت پڑھنا جائز ہے، عام حالات میں جائز نہیں ہے؛ اس لیے ایک حنفی امام کے لیے محض شوافع مقتدیوں کی رعایت میں نماز فجر میں قنوت پڑھنا جائز نہیں ہے ؛ ہاں اگر کبھی مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے پڑھ لیا تو نماز بہ کراہت تحریمیہ ہو جائے گی ۔ واضح رہے کہ شوافع کے نزدیک نماز فجر میں قنوت سنت ہے ،فرض یا واجب نہیں ہے نیز ان کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ قنوت میں کوئی چھوٹی دعا (مثلا رب اغفرلی) پڑھیں؛ لہذا اگر وہ قنوت نہ پڑھیں گے تو ان کی نماز باطل نہ ہوگی، نیز ادائے سنت کے لیے وہ ایسا بھی کرسکتے ہیں کہ امام کے رکوع سے اٹھنے کے بعد مختصرا کوئی دعا پڑھ کر اگلے رکن میں شامل ہوجائیں ، اس طرح کرنے سے قنوت پر بھی عمل ہوجائے گا نیز حنفی امام کی نماز میں بھی کوئی کراہت نہ آئے گی۔

    (ولا یقنت لغیرہ) إلا النازلة فیقنت الإمام فی الجہریة، وقیل فی الکل.... (قولہ ولا یقنت لغیرہ) أی غیر الوتر، وہذا نفی لقول الشافعی - رحمہ اللہ - إنہ یقنت للفجر.(قولہ إلا لنازلة) قال فی الصحاح: النازلة الشدیدة من شدائد الدہر، ولا شک أن الطاعون من أشد النوازل أشباہ.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/ 448، باب الوتر والنوافل،ط: زکریا، دیوبند).....ذہب المالکیة والشافعیة إلی مشروعیة القنوت فی الصبح. قال المالکیة: وندب قنوت سرا بصبح فقط دون سائر الصلوات قبل الرکوع، عقب القراء ة بلا تکبیر قبلہ ، وقال الشافعیة: یسن القنوت فی اعتدال ثانیة الصبح، یعنی بعد ما رفع رأسہ من الرکوع فی الرکعة الثانیة، ولم یقیدوہ بالنازلة.وقال الحنفیة، والحنابلة: لا قنوت فی صلاة الفجر إلا فی النوازل (الموسوعة الفقہیة الکویتیة 27/ 322) نیز دیکھیں : تحفة الالمعی 2/ 236،ط: مکتبہ حجاز،دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند