• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 174097

    عنوان: جلدی جلدی نماز پڑھنے کا حکم

    سوال: مولانا مفتیان کرام امید ہے خیریت سے ہوں گے۔ مولانا ہمارے یہاں ایک صاحب رہتے ہیں جو کہ بڑے نماز کے پابند ہیں لیکن ان کی ایک عادت یہ ہے کہ وہ بڑی جلدی جلدی بڑی عجلت میں نماز ادا کرتے ہیں کئی مرتبہ دیکھنے کے بعد ایک مرتبہ میں نے پوچھ لیا تو حضرت فرمانے لگے کہ اگر کسی طرح سے نماز پڑھنے میں تمہیں تکلیف ہو رہی ہے تو جلدی جلدی پڑھا کرو اس طرح سے ایک فائدہ یہ تو ہوگا کم ازکم جو سزا ایک نماز کے چھوڑنے کی ہے یعنی دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال جہنم میں جلنے کی سزا ہے اس سزا سے تو بچ جائیں گے نماز کسی طرح سے بھی ادا ہوجائے گی۔ برائے مہربانی اس جواب کی روشنی میں اپنی رائے دیں تاکہ صحیح بات سمجھ میں آ سکے۔ مولانااپنی والدہ مرحومہ کی مغفرت کے لئے خصوصی دعا کی بھی درخواست ہے۔ساتھ ہی دادا دادی نانا نانی و سبھی مرحومین کی مغفرت کی دعا کی بھی درخواست ہے نیز میرے اور میرے خاندان بھائی بہنوں وسبھی جملہ رشتہ داروں ساتھ ہی دوست و احباب کی صحت وعافیت نیز پریشانیوں سے بچنے کے لئے اور سبھی کے ایمان کی سلامتی کے لئے دنیا و آخرت میں بھلائی کے لئے خصوصی دعا کی درخواست ہے۔

    جواب نمبر: 174097

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:138-119/N=3/1441

    (۱): نماز میں رکوع سجدہ وغیرہ سکون واطمینان کے ساتھ ادا کرنا ایک اہم ترین سنت ہے۔ اگر نماز میں رکوع سجدہ وغیرہ اطمینان کے ساتھ نہ ادا کیا جائے؛ بلکہ کوے کے چونچ مارنے کی طرح جلدی جلدی ادا کیا جائے تو نماز ناقص ومکروہ ہوتی ہے اور نماز کا ثواب بھی گھٹ جاتا ہے ، آدمی جب باقاعدہ وقت نکال کر نماز کے لیے مسجد آتا ہے تو اُسے اچھی سے اچھی نماز پڑھنی چاہیے؛ تاکہ نمازکا پورا ثواب ملے، محض چند منٹ بچانے کے لیے عجلت وجلد بازی کے ساتھ نماز پڑھ کر نماز ناقص کرنا اور کم ثواب پر راضی ہونا عقل مندی نہیں ہے۔

    عن أبي مسعود الأنصاريقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا تجزیٴ صلاة الرجل حتی یقیم ظھرہ في الرکوع والسجود ، رواہ أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجة والدارمي، وقال الترمذي: ھذا حدیث حسن صحیح (مشکاة المصابیح، کتاب الصلاة، باب الرکوع، الفصل الثاني، ص: ۸۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، عن أبي قتادةقال؛ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أسوأ الناس سرقة الذي یسرق من صلاتہ، قالوا: یا رسول اللہ! وکیف یسرق صلاتہ؟ قال: لا یتم رکوعہ ولا سجودہ، رواہ أحمد (المصدر السابق، ص: ۸۳)، عن عبد الرحمن بن شبلقال: نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن نقرة الغراب الحدیث رواہ أبو داود والنسائي والدارمي (المصدر السابق، باب السجود وفضلہ، الفصل الثالث، ص: ۸۴)، عن طلق بن علي الحنفيقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا ینظر اللہ عزوجل إلی صلاة عبد لا یقیم فیھا صلبہ بین خشوعھا وسجودھا، رواہ أحمد (المصدر السابق)۔وتعدیل الأرکان أي: تسکین الجوارح قدر تسبیحة في الرکوع والسجود، وکذا في الرفع منھما علی ما اختارہ الکمال الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، ۱۸۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    (۲): اللہ تعالی آپ کے جملہ مقاصد حسنہ میں کام یابی عطا فرمائیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند