• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 173845

    عنوان: نماز میں کرسی کے پچھلے پائے دوسری صف میں رکھنے کا حکم

    سوال: ایک مصلی اپنے گھٹنے کے آپریشن کی وجہ سے کرسی پر بیٹھ کر پہلی صف کے درمیان میں جماعت سے نماز پڑھتاہے امام سے تقریباً تین مصلی کے بعد، اور کھڑے ہو کر اقامت پڑھتاہے اور مصلیوں کی صف سے تقریباً ایک فٹ یا اس سے کم کی دوری پر اس کی کرسی ہوتی ہے، تو کیا اس سے اس کی اور دیگر مصلیوں کی نماز میں کوئی فرق پڑے گا؟

    جواب نمبر: 173845

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:157-20T/N=3/1441

     غالباً سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی معذور شخص قیام پر قدرت کی وجہ سے نماز میں قیام کرتا ہے اور رکوع، سجدے کے وقت کرسی پر بیٹھ کر رکوع سجدہ کرتا ہے، جس کی بنا پر وہ اپنی کرسی صف میں اس طرح رکھتا ہے کہ اس کے اگلے پائے تو پہلی صف میں ہوتے ہیں اور پچھلے پائے دوسری صف میں؛ تاکہ قیام کے وقت وہ صف کے دیگر نمازیوں سے آگے نہ ہو؛ لیکن کرسی کے پچھلے پایوں کی وجہ سے دوسری صف میں ایک آدمی کی جگہ خالی رہتی ہے، پس اگر سوال کا خلاصہ یہی ہے تو جواب یہ ہے کہ موصوف کو معلوم کرایا جائے کہ جو شخص کسی واقعی عذر کی وجہ سے زمین پر پیشانی رکھ کر سجدے پر قادر نہ ہو تو اس کے ذمہ سے قیام بھی ساقط ہوجاتا ہے اگرچہ وہ قیام پر قادر ہو؛ لہٰذا اگر موصوف گھٹنوں کے آپریشن کی وجہ سے زمین پر پیشانی رکھ کر سجدہ نہیں کرسکتے تو انھیں پوری نماز زمین پر یا کرسی پر بیٹھ کر ہی پڑھنی چاہیے ، کچھ حصہ کھڑے ہوکر اور کچھ حصہ بیٹھ کر پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ پس جب وہ ایسا کریں گے تو انھیں اپنی کرسی کے پچھلے پائے دوسری صف میں رکھنے کی ضرورت ہی نہ ہوگی اور دوسری صف میں ایک آدمی کی جگہ بھی خالی نہیں رہے گی۔

    قلت:فإن صلی وکان یستطیع أن یقوم ولا یستطیع أن یسجد؟ قال: یصلي قاعداً یومي إیماء ۔ قلت: فإن صلی قائماً یوٴمی إیماء؟ قال: یجزیہ (کتاب الأصل المعروف بالمبسوط للشیباني، کتاب الطھارة والصلاة، باب صلاة المریض فی الفریضة، ۱: ۲۰۷، ط:عالم الکتب)۔

    وأما إذا کان قادراً علی القیام وعاجزاً عن الرکوع والسجود فإنہ یصلی قاعداً بإیماؤسقط عنہ القیام؛ لأن ھذا القیام لیس برکن؛ لأن القیام إنما شرع لافتتاح الرکوع والسجود بہ فکل قیام لا یعقبہ سجود لا یکون رکناً، ولأن الإیماء إنما شرع للتشبہ بمن یرکع ویسجد، والتشبہ بالقعود أکثر، ولھذا قلنا بأن الموٴمیٴ یجعل السجود أخفض من رکوعہ؛ لأن ذلک أشبہ بالسجود، إلا أن بشراً یقول : إنما سقط عنہ بالمرض ما کان عاجزاً عن إتیانہ، فأما فیما ھو قادر علیہ لا یسقط عنہ ولکن الانفصال عنہ علی ما بینا (المبسوط للسرخسي، کتاب الصلاة،باب صلاة المریض، ۱: ۲۱۳، ط: دار المعرفة بیروت، لبنان)۔

    قال:( فإن عجز عن الرکوع والسجود وقدر علی القیام أومأ قاعداً ) ؛لأن فرضیة القیام لأجل الرکوع والسجود؛لأن نھایة الخشوع والخضوع فیھما، ولھذا شرع السجود بدون القیام کسجدة التلاوة والسھو، ولم یشرع القیام وحدہ، وإذا سقط ما ھو الأصل في شرعیة القیام سقط القیام، ولو صلی قائما موٴمیا جاز، والأول أفضل؛لأنہ أشبہ بالسجود (الاختیار لتعلیل المختار، کتاب الصلاة، باب صلاة المریض، ۱: ۱۰۳، ط: دار الرسالة العالمیة)۔

     قولہ: ( فلو قدر علیہ) أي: علی القیام وحدہ أو مع الرکوع کما فی المنیة ۔ قولہ: (ندب إیماوٴہ قاعداً) أي: لقربہ من السجود ، وجاز إیماوٴہ قائماً کما فی البحر ، وأوجب الثاني زفر والأئمة الثلاثة ؛ لأن القیام رکن، فلا یترک مع القدرة علیہ۔ ولنا أن القیام وسیلة إلی السجود للخرور، والسجود أصل ؛لأنہ شرع عبادة بلا قیام کسجدة التلاوة، والقیام لم یشرع عبادة وحدہ، حتی لو سجد لغیر اللہ تعالی یکفر بہ بخلاف القیام۔ وإذا عجز عن الأصل سقطت الوسیلة کالوضوء مع الصلاة والسعي مع الجمعة۔ وما أوردہ ابن الھمام أجاب عنہ في شرح المنیة الخ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، مطلب بحث القیام،۲: ۱۳۲، ط: ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند