• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 173313

    عنوان: مقتدی حضرات كی درخواست پر امام كی عدم موجودگی میں كسی اور عالم كا امامت كرنا؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کہ آج کل مساجد میں نمازوں کے اوقات چسپاں ہوتے ہیں اور عوام کا ذہن یہ بن گیا ہے کہ عین اسی وقت میں جماعت شروع ہونی چاہیے کہ وقت ہوتے ہی صف اول کے مقتدی تاخیر ہونے کی صورت میں پیچھے کی جانب دیکھنے لگتے ہیں اور اور مسجد میں اگر کوء مسافر عالم ہو تو مقتدی حضرات امام کے ایک لمحہ بھی انتظار ک? بغیر عالم صاحب کو نماز پڑھانے پر اصرار کرتے ہیں اور اس طرح نماز مکمل کر تے ہیں اب عرض یہ ہے کہ مذکورہ صورت حال کے تحت شریعت کی روشنی میں درج ذیل سوالات کا جواب ارسال فر مائیں ۱ مساجد میں جو اوقات چسپاں ہیں اسی وقت میں جماعت شروع کرنے کو ضروری سمجھنا یہ عمل کیا حکم رکھتا ہے جبکہ ابھی نماز کا ختم ہو نے میں اتنا وقت ہو کہ دو تین دفعہ جماعت اور ہو سکتی ہے تو کیا ایسا سمجھنا بدعت ہے؟ مجوزہ وقت ہو تے ہی مقتدی امام کے علاوہ امام کی غیر موجودگی میں کسی دوسرے عالم سے امامت کرنے کو کہیں تو کیا وہ ان کے کہنے پر امامت کرسکتا ہے؟ نیز اگر اسنے نماز پڑھادی اور اما م آکر جماعت میں شامل ہو گیا اور نماز کے بعد اگر امام اس نماز پڑھانے والے سے مزاحمت کرے تو اسکا ایسا کرنا کیسا ہے؟ مجوزہ وقت میں امام کی تاخیر صورت میں کیا مقتدیوں کو انتظار صلاة کی فضیلت حاصل ہوگی؟

    جواب نمبر: 173313

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 61-85/H=01/1441

    (۱) بدعت کی اصطلاحی تعریف تو اس پر صادق نہیں آتی اس لئے اُس کو بدعت تو قرار نہیں دیا جاسکتا جس طرح گھڑی گھنٹے زمانہٴ خیر القرون میں نہ تھے اب ضرورةً وعامةً گھڑی سے ہی اوقاتِ عبادات مقرر کئے جاتے ہیں اور اس کا بدعتِ شرعیہ نہ ہونا بالکل ظاہر ہے؛ البتہ نماز کا جو وقت مقرر ہو جائے امام صاحب بلکہ موٴذن صاحب کو چاہئے کہ اذان و جماعت کی ادائیگی اسی وقت مقررہ کو ملحوظ رکھ کر نماز پڑھایا کریں اذان دیا کریں اس کے خلاف کرنے میں بعض مرتبہ نمازیوں کو تکلیف و پریشانی ہوتی ہے بعض دفعہ تاخیر کرنے سے نمازیوں کی نماز کا خشوع خضوع فوت ہو جاتا ہے نمازیوں میں بیمار، مسافر، اصحاب حاجت لوگ بھی ہوتے ہیں اور تاخیر کرنے سے بسااوقات ان کو شدید تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے باقی کسی عارضِ وقتی کی وجہ سے اتفاقی طور پر امام صاحب کو کچھ تاخیر ہو جائے تو وقت ہوتے ہی جماعت قائم کرلینا بھی زیادتی ہے خواہ جماعت کوئی عالم ہی پڑھائے، چونکہ مستقل امام کہ جو امامت صحیح طریقہ پر انجام دے اور موجب کراہت کوئی امر نہ پایا جاتا ہو تو عالم کے مقابلہ میں امام مستقل ہی احق بالامامة ہوتا ہے اس لئے قابل برداشت حد تک کبھی کبھار تاخیر پر چہ می گوئیاں اور اعتراض کرنا بھی شرعاً مناسب نہیں رہا یہ امر کہ قابل برداشت حد کیا ہے؟ سو اس کے متعلق عرض ہے کہ ہر مسجد کے مقتدیوں کے حالات یکساں نہیں ہوتے اس لئے امام مسجد متولی اور نمازی بمشورہ اس کو طے کرلیں۔

    (۲) کراہت سے خالی نہیں باقی ایسا کوئی جرم بھی نہیں کہ جس پر باقاعدہ نزاع اور جھگڑے کھڑے جائیں۔

    (۳) اس کاجواب نمبر (۲) کے تحت آگیا یعنی مزاحمت اور نزاع نہ کریں؛ البتہ آئندہ بمشورہ نظام طے کرلیں مثلاً دو یا تین منٹ انتظار کر لیا کریں گے۔

    (۴) انتشار نہ ہو تو انتظار صلاة کی فضیلت حاصل ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند