عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 173313
جواب نمبر: 173313
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 61-85/H=01/1441
(۱) بدعت کی اصطلاحی تعریف تو اس پر صادق نہیں آتی اس لئے اُس کو بدعت تو قرار نہیں دیا جاسکتا جس طرح گھڑی گھنٹے زمانہٴ خیر القرون میں نہ تھے اب ضرورةً وعامةً گھڑی سے ہی اوقاتِ عبادات مقرر کئے جاتے ہیں اور اس کا بدعتِ شرعیہ نہ ہونا بالکل ظاہر ہے؛ البتہ نماز کا جو وقت مقرر ہو جائے امام صاحب بلکہ موٴذن صاحب کو چاہئے کہ اذان و جماعت کی ادائیگی اسی وقت مقررہ کو ملحوظ رکھ کر نماز پڑھایا کریں اذان دیا کریں اس کے خلاف کرنے میں بعض مرتبہ نمازیوں کو تکلیف و پریشانی ہوتی ہے بعض دفعہ تاخیر کرنے سے نمازیوں کی نماز کا خشوع خضوع فوت ہو جاتا ہے نمازیوں میں بیمار، مسافر، اصحاب حاجت لوگ بھی ہوتے ہیں اور تاخیر کرنے سے بسااوقات ان کو شدید تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے باقی کسی عارضِ وقتی کی وجہ سے اتفاقی طور پر امام صاحب کو کچھ تاخیر ہو جائے تو وقت ہوتے ہی جماعت قائم کرلینا بھی زیادتی ہے خواہ جماعت کوئی عالم ہی پڑھائے، چونکہ مستقل امام کہ جو امامت صحیح طریقہ پر انجام دے اور موجب کراہت کوئی امر نہ پایا جاتا ہو تو عالم کے مقابلہ میں امام مستقل ہی احق بالامامة ہوتا ہے اس لئے قابل برداشت حد تک کبھی کبھار تاخیر پر چہ می گوئیاں اور اعتراض کرنا بھی شرعاً مناسب نہیں رہا یہ امر کہ قابل برداشت حد کیا ہے؟ سو اس کے متعلق عرض ہے کہ ہر مسجد کے مقتدیوں کے حالات یکساں نہیں ہوتے اس لئے امام مسجد متولی اور نمازی بمشورہ اس کو طے کرلیں۔
(۲) کراہت سے خالی نہیں باقی ایسا کوئی جرم بھی نہیں کہ جس پر باقاعدہ نزاع اور جھگڑے کھڑے جائیں۔
(۳) اس کاجواب نمبر (۲) کے تحت آگیا یعنی مزاحمت اور نزاع نہ کریں؛ البتہ آئندہ بمشورہ نظام طے کرلیں مثلاً دو یا تین منٹ انتظار کر لیا کریں گے۔
(۴) انتشار نہ ہو تو انتظار صلاة کی فضیلت حاصل ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند