عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 171196
جواب نمبر: 171196
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 967-818/D=10/1440
صورت مسئولہ میں آپ کا وتر صحیح ہوگیا، ہندیہ میں ہے ولو رکع الامام ولم یقرأ القنوت ولم یقرأ المقتدی من القنوت شیئاً إن خاف فوت الرکوع فانہ یرکع وان کان لایخاف یقنت ثم یرکع کذا فی الخلاصة (ہندیہ: ۱/۱۷۰)
اور اگر امام رکوع سے پہلے دعاء قنوت پڑھتا ہی نہیں بلکہ قومہ میں پڑھتا ہے تو آپ رکوع سے پہلے پڑھنے کے بجائے قومہ ہی میں پڑھیں۔
امام کے غیر حنفی ہونے کی صورت میں آپ مطلقاً وتر کی نیت کریں واجب کی نیت نہ کریں، اس طرح کہ میں وتر کی نماز پڑھ رہا ہوں۔
قال فی الدر المختار: وصح الاقتداء فیہ بشافعی مثلاً لم یفصلہ بسلام لا ان فصلہ علی الاصح فیہما للاتحاد وان اختلف الاعتقاد ولذا ینوی الوتر لا الوتر الواجب کما فی العیدین للاختلاف قال الشامی تحت قولہ علی الاصح فیہما: ای فی جواز اصل الاقتداء فیہ بشافعی وفی اشتراط عدم فصلہ (ج: ۲/۴۴۴، الدر المختار) قال فی الہندیہ: ولو صلی الوتر بمن یقنت فی الوتر بعد الرکوع فی القومة والمقتدی لایری ذالک تابعہ فیہ ہکذا فی فتاوی قاضیخان (ہندیہ: ۱/۱۷۱) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند