• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 170455

    عنوان: کیا عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے؟

    سوال: حضرت میرا سوال یہ ہے کہ کیا عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ جس طرح مرد نماز پرہے گا اسیی طرح عورت بھی پڑہے گی یعنی مرد جیسے آٹھ اعزہ پر سجدہ کرتا ہے اسی طرح عورت بھی کرے گی جبکہ ہندوستان اور پاکستان میں کی عورتوں کو مینے پوری طرہ سے زمین سے چمٹ کر سجدہ کرتے بچپن سے دیکھتا آیا ہوں ہمارے یہاں کچھ عورتیں دلیل دیتیں ہیں کہ اس طریقہ سے صحابیہ عورت کا نماز پڑھنا سنت سے ثابت ہے اور عورت کو بھی کہن زمین سے چمٹا یا زمین سے چپک کر نماز پڑھنے سے نہی ہوتی لہاذا عورتوں کی نماز کا مکمل طریقہ بتانے کی زحمت کریں اللہ آپ کو جزاے خیر دے ۔ 2- ایک عالم دین سے سنا ہے کہ آدم علیہ السلام ایک روز کہیں باہر گئیے تھے کہ ابلیسی ایک چھوٹے بچچے خنس کے ساتھ داخل ہوا اور اماں حوا سے درخواست کی کہ یہ میرا بیٹا ہے اور میں باہر کام سے جا رہا ہوں اس لیے آپ اس بچے کو اپنے پاس میرے آنے تک رکہ لیں میں واپس آکر لے جاوں گا اماں حوا راضی ہو گیں رکھ لیا اتنے میں آدم علیہ السلام آ گیے اور انہونے بچچے کے بارے میں پوچھا تو اماں جان نے بتا دیا کہ ابلیس کا بیٹا اس طرہ چھوڑ گیا آدم علیہ السلام نے کہا یہ تو میرے دشمن کا بیٹا ہے لہاذا اسے مار دیا دو دنوں بعد ابلیس آیا اسنے پوچھا کہ بیٹا کہاں ہے اماں حوا نے سچ سچ بتا دیا خیر ابلیس نے وہیں سے آوازدی خناس تو وہ زندہ ہو کر آگیا اب دوبارہ اماں حوا سے رکھنے لیے کہا تو اماں حوا اس بار پھر راضی ہو گیں پھر آدم علیہ السلام کو پتا چلا تو انہوں نے کاٹ کر جلا دیا ابلیس آیا تو اس نے پہلے کی طرح پھر آواز دی خناس زندہ ہو کر آگیا اب آدم علیہ السلام کو جب پتا چلا تو انہوں نے ذبح کر کے پکا کر کھا لیا پھر ابلیس اسنے پوچھا تو اماں حوا نے پورا واقعہ سنا دیا اب ابلیس نے پکارہ تو خناس آدم علیہ السلام کے پیٹ سے بولا کہ میں یہاں ہوں آدم علیہ السلام کے پیٹ میں ہوں تو ملعون خوش ہو گیا اور بولا اب میرا کام ہو گیااب وساوس کا تیر آدم کی اولاد پر چلانا آسان ہو گیا یہ روایت ترمذی کی بتای ہے براے مہربانی تفصیل کیا ہے بتانے کی ظہمت کریں شکریہ۔

    جواب نمبر: 170455

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:998-123T/L=10/1440

     عورت کے لیے تستر بہر حال شریعت مقدسہ میں مطلوب ہے،اوربہت سے مسائل میں اس کی رعایت کی گئی ہے ،نماز میں میں بھی اس کی رعایت کی گئی ہے عورت کا چمٹ کر سجدہ کرنا متعدد احادیث سے ثابت ہے نمونہ کے طور کچھ احادیث ذکر کی جاتی ہیں :

     (۱) وَکَانَ یَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ یَتَجَافَوْا فِی سُجُودِہِمْ، وَیَأْمُرُ النِّسَاءَ یَنْخَفِضْنَ فِی سُجُودِہِنَّ (بیہقی: ۲۲۲/۲)

    حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ وہ سجدہ میں اپنے اعضاء کو کشادہ رکھے اور عورتوں کو حکم دیتے تھے کہ وہ اپنے اعضاء کو پست اور سمیٹ کر رکھیں۔

    (۲) أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم مر علی امرأتین تصلیان فقال إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأة فی ذلک لیست کالرجل (کنز العمال: ۷/ ۴۶۲، جمع الجوامع ۲۴۶۱/۱)

    ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر نماز پڑھنے والی دو عورتوں کے پاس سے ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا جب تم دونوں سجدہ کروگی تو اپنے جسم کے بعض حصہ کو زمین سے ملالینا کیونکہ اس سلسلے میں عورت مرد کی طرح نہیں ہے۔

    (۳) عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم․․ فإذا سجدت (المرأة) الصقت بطنہا فی فخذیہا کاستر ما یکون لہا (الحدیث) (کنز العمال: ۷/ ۵۴۹، جامع الأحادیث: ۴۳/۳)

    حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں․․․ پھر جب عورت سجدہ کرے گی تو اپنا پیٹ دونوں رانوں سے ملا لے گی، یہ کیفیت اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والی ہے۔

    (۴) عن علی قال إذا سجدت المرأة فلیحتفز ولتضم فخذیہا (مصنف ابن أبی شیبہ: ۱/ ۳۰۲، مصنف عبد الرزاق: ۳/ ۱۳۸)

    حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ کر سرینوں پر بیٹھے اور پیٹ کو دونوں رانوں سے ملائے۔

    (۵) عن ابن عباس أنہ سئل عن صلاة المرأة فقال تجتمع وتحتفز (مصنف ابن أبی شیبة: ۱/ ۲۷۰)

    حضرت ابن عباس سے عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا عورت سمٹ کر اور سکڑکر نماز پڑھے گی۔

    (۶) عن إبراہیم قال إذا سجدت المرأة فلتلزج بطنہا بفخذیہا ولا ترفع عجیزتہا ولا تجافی کما یجافی الرجل (بیہقی ۲/ ۲۲۲، مصنف ابن ابی شیبة: ۱/ ۲۷۰)

    حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے فرمایا جب عورت سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے اور اپنی سرین کو نہ اٹھائے اور مرد کی طرح اپنے اعضاء کو جدا نہ رکھے۔

    (۷) عن الحسن وقتادة فالا إذا سجدت المرأة فإنہا تنضم ما استطاعت ولا تجافی لکی لا ترتفع عجیزتہا (مصنف عبد الرزاق: ۳/ ۱۳۷)

    حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اور قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ عورت جب سجدہ کرے تو حتی المقدور سمٹنے کی کوشش کرے اور اعضا کو کشادہ نہ کرے تاکہ اس کی سرین اونچی نہ ہو۔مزید تفصیل کے لیے حدیث وشروحِ حدیث کی طرف مراجعت کی جائے اس مختصر میں تفصیلی حکم لکھنے کی گنجائش نہیں ۔

    (۲)خناس خنس سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں پیچھے لوٹنے کے خناس کا اطلاق شیطان پر ہوتا ہے اور وہ اس وجہ سے کہ شیطان کی عادت ہے کہ جب بندہ اللہ کا نام لیتا ہے تو پیچھے بھاگ جاتا ہے پھر ذرا غافل ہوا تو آجاتا ہے اور یہ عمل مسلسل جاری رکھتا ہے ،اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ آیت میں خناس سے مراد شیطان ہے ،آپ نے عالم دین کے واسطے سے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے اس کو امام قرطبی نے بحوالہ حکیم ترمذی ”قیل“ سے نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ میرے خیال میں یہ واقعہ صحیح نہیں ہے ۔

     من شر الوسواس الخناس یعنی: من شر الشیطان. والمعنی: من شر ذی الوسواس...وقیل: إن الوسواس الخناس ابن لإبلیس، جاء بہ إلی حواء، ووضعہ بین یدیہا وقال: اکفلیہ. فجاء آدم (علیہ السلام 3 ) فقال: ما ہذا (یا حواء ) ! قالت: جاء عدونا بہذا وقال لی: اکفلیہ. فقال: ألم أقل لک لا تطیعیہ فی شی، ہو الذی غرنا حتی وقعنا فی المعصیة؟ وعمد إلی الولد فقطعہ أربعة أرباع، وعلق کل ربع علی شجرة، غیظا لہ، فجاء إبلیس فقال: یا حواء، أین ابنی؟ فأخبرتہ بما صنع بہ آدم (علیہ السلام) فقال: یا خناس، فحیی فأجابہ. فجاء بہ إلی حواء وقال: اکفلیہ، فجاء آدم (علیہ السلام) فحرقہ بالنار، ودر رمادہ فی البحر، فجاء إبلیس (علیہ اللعنة) فقال: یا حواء، أین ابنی؟ فأخبرتہ بفعل آدم إیاہ، فذہب إلی البحر، فقال: یا خناس، فحیی فأجابہ. فجاء بہ إلی حواء الثالثة، وقال: اکفلیہ. فنظر، إلیہ آدم، فذبحہ وشواہ، وأکلاہ جمیعا. فجاء إبلیس فسألہا فأخبرتہ (حواء ) . فقال: یا خناس، فحیی فأجابہ (فجاء بہ) من جوف آدم وحواء. فقال إبلیس: ہذا الذی أردت، وہذا مسکنک فی صدر ولد آدم، فہو ملتقم قلب ابن آدم ما دام غافلا یوسوس، فإذا ذکر اللہ لفظ قلبہ وانخنس. ذکر ہذا الخبر الترمذی الحکیم فی نوادر الأصول بإسناد عن وہب ابن منبہ. وما أظنہ یصح، واللہ تعالی أعلم.( تفسیر القرطبی:20/261،الناشر : دار الکتب المصریة القاہرة)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند