• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 169561

    عنوان: قعدہ اولی میں بھول کر سلام پھیرنے کا حکم

    سوال: ہمارا گھر مسجد کے بالکل سامنے ہے اور وہ مسجد والے مسجد کو ہماری جگہ خرید کر بڑی بنانا چاہتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ اس مسجد کے امام اور وہاں نماز پڑھنے والے مقتدی بدعت کے قائل ہیں جیسے نبی کو علم غیب ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ ان کا سایہ تمام مسلک والے کافر ہیں ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی جگہ ان لوگوں کو مسجد کے لیے دیدیں؟ اگر ہم مسجد میں دیں گے تو کیا وہاں جو بھی گناہ کی باتیں اس مسجد میں ہوں گی، اس کا گناہ ہمیں بھی ہوگا؟ اگر وہ لوگ جبراً ہماری جگہ لے لیں تو کیا حکم ہے؟ براہ کرم، جواب دیں ۔ اس مسئلہ میں پچھلے دو سال سے پریشان ہوں۔ ایک مقتدی کا سوال ہے۔

    جواب نمبر: 169561

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:671-748/N=11/1440

    جی ہاں! صورت مسئولہ میں جب امام صاحب نے قعدہ اولی میں بھول کر ( یعنی: نماز مکمل سمجھ کر) سلام پھیرا اور لقمہ دینے پر جب یاد آیا تو فوراً تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوگئے تو نماز فاسد نہیں ہوئی ؛ البتہ سجدہ سہو واجب ہوگیا؛ کیوں کہ تین یا چار رکعت والی نماز میں قعدہ اولی میں بھول کر سلام پھیرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے، صرف سجدہ سہو واجب ہوتا ہے۔

    سلم مصل الظھر مثلاً علی رأس الرکعتین توھماً إتمامھا أتمھا أربعاً وسجد للسھو؛ لأن السلام ساھیاً لا یبطل؛ لأنہ دعا من وجہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب سجود السھو، ۲:۵۵۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند