عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 168767
جواب نمبر: 168767
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:566-462/N=6/1440
اگر کوئی شخص محض سستی وکاہلی کی وجہ سے جان بوجھ کر (بلا عذر شرعی) بے وضو نماز پڑھتا ہے تو اس پر کفر کا حکم نہیں ہوگا، اسی طرح اگر کوئی شخص وضو کی فرضیت نہیں جانتا؛ اس لیے جان بوجھ کر بے وضو نماز پڑھتا ہے تو وہ بھی کافر نہیں ہوگا؛ البتہ اگر کوئی شخص وضو کا حکم ہلکا ومعمولی سمجھتے ہوئے بہ طور استہزا ومذاق بے وضو نماز پڑھتا ہے تو وہ کافر ہوجائے گا ؛کیوں کہ دین کی کسی ثابت شدہ بات کا استہزا ومذاق کفر ہوتا ہے۔
وبہ -بما في الظھیریة- ظھر أن تعمد الصلاة بلا طھر غیر مکفر کصلاتہ لغیر القبلة أو مع ثوب نجس، وھو ظاھر المذھب کما في الخانیة، وفي سیر الوھبانیة: وفي کفر من صلی بغیر طھارة مع العمد خلف في الروایات یسطر (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارة، ۱۸۵، ۱۸۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
قولہ: ”کما في الخانیة“: حیث قال بعد ذکرہ الخلاف في مسألة الصلاة بلا طھارة: وإن الإکفار روایة النوادر، وفي ظاھر الروایة: لا یکون کفراً، وإنما اختلفوا إذا صلی لا علی وجہ الاستخفاف بالدین، فإن کان علی وجہ الاستخفاف ینبغي أن یکون کفراً عند الکل اھ، أقول: وھذا مأید لما بحثہ في الحلبة لکن بعد اعتبار کونہ مستخفاً ومستھیناً بالدین کما علمت من کلام الخانیة، وھو بمعنی الاستھزاء والسخریة بہ، أما لو کان بمعنی عد ذلک الفعل خفیفاً وھنیئاً من غیر استھزاء و لاسخریة؛ بل لمجرد الکسل أو الجھل فینبغي أن لا یکون کفراً عند الکل (رد المحتار)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند