• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 168026

    عنوان: سر پر مسح اور قنوت ِ وتر سے متعلق سوال

    سوال: میں نے وضو میں سر کے مسح کے بارے میں ایک مسئلہ سنا تھا (مفتی طارق مسود صاحب سے) کہ جو سر کامسح ٹیکنیکل طریقہ سے کرتاہے وہ کہیں سے ثابت نہیں، وہ ٹیکنیکل طریقہ یہ ہے (جیسے یہاں پہ ہم لوگ عموماً کرتے ہیں کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے حصہ کو ملا کر سر کے پیچھے تک لے کر جاتے ہیں اور ہتھیلی کے حصہ سے پھر آگے لے کر آتے ہیں اور پھر شہادت کی انگلی سے کان کے اندر کے حصہ کامسح کرتے ہیں اور انگلیوں سے کان کے باہر حصہ کو) وہ کہتے ہیں کہ کان کا مسح کرنا کہیں سے ثابت نہیں ہے۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اگر سر کے ایک حصے کو ٹچ بھی کیا تو مسح ہوجاتاہے ، امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک سر کا چوتھائی حصہ مسح کرنا ضروری ہے اور اگر کوئی اپنی ہتھیلی کو سر کے آگے حصہ سے پیچھے تک لے کر جاتاہے اور واپس نہیں لاتاہے تو بھی مسح ہوجاتاہے۔ اس مسئلہ پہ آپ تفصیل سے بتائیں ۔ اور دسرا مسئلہ یہ ہے کہ جو ہم لوگ وتر میں دعائے قنوت پڑھتے ہیں یہاں پہ اور جو عرب کے علما ء دعائے قنوت پڑھتے ہیں تو کیا دونوں دعائے قنوت وتر میں پڑھ سکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 168026

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:479-76T/sn=7/1440

     (1) معلوم نہیں آپ کومفتی مسعود طارق صاحب کی طرف منسوب یہ بات کس ذریعے سے پہنچی ہے ؟ بہر حال اگر آپ نے کسی آڈیو میں یہ بیان سنا ہے تو وہ آڈیو قریب کے کسی معتبر مفتی کو سنا دیں، پھر وہ اس بارے میں جو کچھ عرض کریں اس کے مطابق عمل در آمد کریں؛ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ وضو میں فرض تو صرف چوتھائی سر کا مسح کرنا ہے ؛ لیکن استیعاب راس یعنی پورے سر کا مسح کرنا مسنون ہے، استیعاب راس کا طریقہ تعلیم الاسلام (ص:70، حصہ سوئم )وغیرہ میں موجود ہے وہاں دیکھ لیں، نیز کانوں کا مسح کرنا بھی مستحب ہے، یہ بھی متعدد احادیث سے ثابت ہے، تفصیلی دلائل کے لئے نصب الرایہ اور اعلاء السنن وغیرہ کا مطالعہ کریں۔

    (2) وتر میں اگر چہ مسنون اور افضل تو یہی ہے کہ ” اللہم إنا نستعینک إلخ یہ دعا پڑھی جائے ؛ لیکن اگر کوئی شخص اس کے علاوہ دوسری دعا مثلا قنوت نازلہ میں پڑھی جانے والی دعا(جو عربوں کے یہاں بالعموم رائج ہے ) پڑھ لے تب بھی شرعا درست ہے ۔

    (وقنت فیہ) ویسن الدعاء المشہور(قولہ ویسن الدعاء المشہور) قدمنا فی بحث الواجبات التصریح بذلک عن النہر. وذکر فی البحر عن الکرخی أن القنوت لیس فیہ دعاء مؤقت لأنہ روی عن الصحابة أدعیة مختلفة ولأن المؤقت من الدعاء یذہب برقة القلب. وذکر الإسبیجابی أنہ ظاہرالروایة. وقال بعضہم: المراد لیس فیہ دعاء مؤقت ما سوی اللہم إنا نستعینک. وقال بعضہم: الأفضل التوقیت، ورجحہ فی شرح المنیة تبرکا بالمأثور اہ.

    والظاہرأن القول الثانی والثالث متحدان، وحاصلہما تقیید ظاہرالروایة بغیرالمأثورکما یفیدہ قول الزیلعی.وقال فی المحیط والذخیرة: یعنی من غیر قولہ اللہم إنا نستعینک إلخ واللہم اہدنا إلخ اہ فلفظ یعنی بیان لمراد محمد فی ظاہر الروایة، فلایکون ہذا القول خارجا عنہا، ولذا قال فی شرح المنیة: والصحیح أن عدم التوقیت فیما عدا المأثور لأن الصحابة اتفقوا علیہ ولأنہ ربما یجری علی اللسان ما یشبہ کلام الناس إذا لم یؤقت ثم ذکراختلاف الألفاظ الواردة فی اللہم إنا نستعینک إلخ. ثم ذکرأن الأولی أن یضم إلیہ اللہم اہدنی إلخ وأن ما عدا ہذین فلا توقیت فیہ)․ الدرالمختارمع رد المحتار2/442، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند