عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 168026
جواب نمبر: 168026
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:479-76T/sn=7/1440
(1) معلوم نہیں آپ کومفتی مسعود طارق صاحب کی طرف منسوب یہ بات کس ذریعے سے پہنچی ہے ؟ بہر حال اگر آپ نے کسی آڈیو میں یہ بیان سنا ہے تو وہ آڈیو قریب کے کسی معتبر مفتی کو سنا دیں، پھر وہ اس بارے میں جو کچھ عرض کریں اس کے مطابق عمل در آمد کریں؛ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ وضو میں فرض تو صرف چوتھائی سر کا مسح کرنا ہے ؛ لیکن استیعاب راس یعنی پورے سر کا مسح کرنا مسنون ہے، استیعاب راس کا طریقہ تعلیم الاسلام (ص:70، حصہ سوئم )وغیرہ میں موجود ہے وہاں دیکھ لیں، نیز کانوں کا مسح کرنا بھی مستحب ہے، یہ بھی متعدد احادیث سے ثابت ہے، تفصیلی دلائل کے لئے نصب الرایہ اور اعلاء السنن وغیرہ کا مطالعہ کریں۔
(2) وتر میں اگر چہ مسنون اور افضل تو یہی ہے کہ ” اللہم إنا نستعینک إلخ یہ دعا پڑھی جائے ؛ لیکن اگر کوئی شخص اس کے علاوہ دوسری دعا مثلا قنوت نازلہ میں پڑھی جانے والی دعا(جو عربوں کے یہاں بالعموم رائج ہے ) پڑھ لے تب بھی شرعا درست ہے ۔
(وقنت فیہ) ویسن الدعاء المشہور(قولہ ویسن الدعاء المشہور) قدمنا فی بحث الواجبات التصریح بذلک عن النہر. وذکر فی البحر عن الکرخی أن القنوت لیس فیہ دعاء مؤقت لأنہ روی عن الصحابة أدعیة مختلفة ولأن المؤقت من الدعاء یذہب برقة القلب. وذکر الإسبیجابی أنہ ظاہرالروایة. وقال بعضہم: المراد لیس فیہ دعاء مؤقت ما سوی اللہم إنا نستعینک. وقال بعضہم: الأفضل التوقیت، ورجحہ فی شرح المنیة تبرکا بالمأثور اہ.
والظاہرأن القول الثانی والثالث متحدان، وحاصلہما تقیید ظاہرالروایة بغیرالمأثورکما یفیدہ قول الزیلعی.وقال فی المحیط والذخیرة: یعنی من غیر قولہ اللہم إنا نستعینک إلخ واللہم اہدنا إلخ اہ فلفظ یعنی بیان لمراد محمد فی ظاہر الروایة، فلایکون ہذا القول خارجا عنہا، ولذا قال فی شرح المنیة: والصحیح أن عدم التوقیت فیما عدا المأثور لأن الصحابة اتفقوا علیہ ولأنہ ربما یجری علی اللسان ما یشبہ کلام الناس إذا لم یؤقت ثم ذکراختلاف الألفاظ الواردة فی اللہم إنا نستعینک إلخ. ثم ذکرأن الأولی أن یضم إلیہ اللہم اہدنی إلخ وأن ما عدا ہذین فلا توقیت فیہ)․ الدرالمختارمع رد المحتار2/442، ط: زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند