• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 167718

    عنوان: کیا موٴذن ہی کے لیے اقامت کہنا بہتر ہے ؟

    سوال: کیا اذان پڑھنے والے کے لیے اقامت مستحب ہے ؟ مکمل تفصیل کے ساتھ جواب مطلوب ہے ۔

    جواب نمبر: 167718

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:420-349/N=5/1440

    اقامت موٴذن کا حق ہے؛ اس لیے موٴذن کی موجودگی میں اس کی اجازت ومرضی کے بغیر دوسرے کا اقامت کہنا مکروہ ہے۔ اور اگر موٴذن کی اجازت سے کوئی دوسرا اقامت کہہ دے تو جائز ہے؛ البتہ افضل یہی ہے کہ خود موٴذن ہی اقامت کہے۔

    والأفضل أن یکون الموٴذن ھو المقیم کذا في الکافي، وإن أذن رجل وأقام آخر إن غاب الأول جاز من غیر کراھة، وإن کان حاضراً یلحقہ الوحشة بإقامة غیرہ یکرہ، وإن رضي بہ لا یکرہ عندنا کذا في المحیط (الفتاوی الھندیة، کتاب الصلاة، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال الموٴذن، ۱: ۵۴، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، وفي الفتاوی الظھیریة: والأفضل أن یکون المقیم ھو الموٴذن، ولو أقام غیرہ جاز(البحر الرائق، کتاب الصلاة، باب الأذان، ۱: ۴۴۷، ط؛ مکتبة زکریا دیوبند)، أقام غیر من أذن بغیبتہ أي: الموٴذن لا یکرہ مطلقاً، وإن بحضورہ کرہ إن لحقہ وحشة (الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الصلاة، باب الأذان، ۲:۶۴، ط؛ مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ:”لا یکرہ مطلقاً“: لحقہ وحشة أولا لتضییعہ حقہ بتقصیرہ (حاشیة الطحطاوي علی الدر، ۱: ۱۸۸، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)، الأفضل أن یکون الموٴذن ھو المقیم لحدیث: من أذن فھو یقیم، وتمامہ في حاشیة نوح (رد المحتار، ۲: ۶۴)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند