عنوان: وطن اقامت مطلق سفر شرعی سے باطل ہوجاتا ہے
سوال: آپ کے ایک فتوی کی عبارت یہ ہے جس جگہ آدمی محض ملازمت کی وجہ سے قیام پذیر ہو، وہاں اس کی مستقل قیام اور رہائش کی نیت نہ ہو تو وہ وہ جگہ ملازم کے لیے وطن اصلی نہیں ہوگی خواہ وہ شخص وہاں معہ اہل وعیال مقیم ہو یا اہل وعیال کے بغیر تنہا مقیم ہو؛ البتہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کی صورت میں وہ وطن اقامت ہوگی اور وطن اقامت مطلق سفر شرعی سے باطل ہوجاتا ہے خواہ اس جگہ دوبارہ واپسی کا ارادہ ہو یا نہ ہو، نیز معہ جملہ سازو وسامان سفر کیا جائے یا کچھ سامان کے ساتھ یا تنہا بغیر سامان کے سفر کیا جائے ، بہر صورت مطلق سفر شرعی سے وطن اقامت باطل ہوجاتا ہے ، راجح اور مفتی بہ قول یہی ہے اور کتب فقہ کے متون میں ایسا ہی ہے ؛ اس لیے صورت مسئولہ میں حامد جب بھی جائے ملازمت سے سفر شرعی پر جائے گا تو اس کا وطن اقامت باطل ہوجائے گا اور آئندہ اگرپندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کی نیت سے جائے ملازمت پر آتا ہے تو وہ مقیم ہوگا ورنہ مسافرر ہی رہے گا۔اکابر علمائے دیوبند کا یہی مسلک اور عمل ہے اور اصول افتا کی روشنی میں بھی یہی صحیح اور درست ہے (امداد المفتین، ص: ۳۲۱، ۳۲۲، سوال: ۲۵۱، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی، فتاوی محمودیہ ۷:۴۹۱ - ۴۹۴، سوال: ۳۵۸۸- ۳۵۹۱،مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل، فتاوی رحیمیہ جدید، ۵: ۱۷۷، سوال: ۲۲۵، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی، وغیرہ )۔
اور ایک دوسرے دارالافتاء کا فتویٰ مندرجہ زیل ہے وطن اقامت کے بارے میں فقہ حنفی کی کتابوں سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وطن اقامت سے بنیت سفر نفس خروج ہی وطن اقامت کے لئے مبطل ہے ’ جیساکہ الدر المختار ج:۲’ص:۱۳۲ باب صلاة المسافر میں ہے : (و)یبطل (وطن الاقامة بمثلہ و) بالوطن الاصلی (و) بانشاء (السفر)۔ اور فتاویٰ ہندیہ الباب الخامس عشر’ ج:۱’ ص:۱۴۲ میں ہے : ووطن الاقامة یبطل بوطن الاقامة وبانشاء السفر وبالوطن الاصلی ہکذا فی التبیین۔ اسی طرح حلبی کبیر: فصل فی صلاة المسافر : ص:۵۴۴’ ط: سہیل اکیڈمی میں ہے ۔ مذکورہ بالا عبارات فقہیہ سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ مقیم آدمی اگر بنیت سفر وطن اقامت سے چلا جائے تو دو بارہ جب اس وطن اقامت میں پندرہ دن سے کم کی نیت کرکے آئے گا تو وہ مسافر رہے گا اور قصر نماز پڑھے گا’ لیکن ان عبارات فقہیہ کی صحیح مراد سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ وہ یہ کہ عبارات فقہیہ پر غور کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وطن اقامت سے محض سفر کرنا ہی وطن اقامت کے لئے مبطل نہیں ہے یعنی وطن اقامت محض سفر کرنے سے باطل نہیں ہوتا’ بلکہ سفر بصورت ارتحال مبطل ہے یعنی یہ بطلان اس وقت ہوگا جب کہ وطن اقامت سے جاتے وقت اپنا سامان وغیرہ بھی ہمراہ لیجاکر وطن اقامت کو بالکلیہ ختم کردے ’ جس سے یہ سمجھا جائے کہ مذکورہ شخص کا ارادہ فی الحال دو بارہ یہاں آنے کا نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وطن اصلی سفر سے باطل نہیں ہوتا’ کیونکہ وطن اصلی سے سفر کرنا وطن اصلی کے چھوڑنے پر دلالت نہیں کرتا’ بلکہ اہل وعیال وغیرہ کی موجودگی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جانے والا اس مقام پر دوبارہ واپس آنے کے …کہ جانے والا اس مقام پر دوبارہ واپس آنے کے قصد وارادہ سے جارہا ہے ’ لہذا اگر وطن اصلی سے جانے والا کوئی شخص اہل وعیال سمیت چلا جائے اور کسی دوسری جگہ کو وطن اصلی بنالے اور پہلے والے وطن اصلی کو بالکلیہ ختم کردے تو ایسی صورت میں پہلے والے وطن اصلی کی وطنیت بھی ختم ہوجاتی ہے ’ یہ بات کتب فقہ میں مصرح ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بطلان وطن کا مدار ترک وطن یا اعراض عن التوطن پر ہے ’ محض خروج بنیت سفر پر نہیں’ پس جس خروج سے بھی ترک توطن کا عزم کرلیا اور وہاں سے نکل پڑا اور اس وطن کی رہائش بالکلیہ ختم کردی’ یا کسی دوسری جگہ کو وطن اصلی بنالیا’ تو وہ وطن باطل ہو جائے گا’ خواہ یہ وطن اصلی ہو یا وطن اقامت ہو۔ البتہ ان دونوں وطنوں سے سفر کرنے میں عام طور پرایک فرق ہوا کرتا ہے جس کی وجہ سے ان دونوں وطنوں کے متعلق حکم مختلف ہوا کرتا ہے ’وہ یہ کہ : وطن اصلی سے سفر عام حالات میں بدوں ارادہ ترک وطن ہوتا ہے یعنی کسی حاجت وغیرہ کے لئے سفر کرنا پڑتا ہے پھر واپس اسی وطن پر آنا ہوتا ہے اور یہ سفر بصورت ارتحال نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف وطن اقامت سے سفر عموماً بارادہ ترک وطن ہوتا ہے ’ کیونکہ اصلی رہائش تو کسی اور جگہ ہوتی ہے ’ یہاں ضرورت کے لئے قیام تھا’ ضرورت پوری ہونے پر یہاں سے جانا ہوتا ہے ’ اس فرق کے پیش نظر یہ کہا گیا ہے کہ سفر وطن اقامت کے لئے مبطل ہے ’ پس متون کی تعبیر سفر کے اسی فرد مطلق کے بارے میں ہوگی’ تمام سفروں کے بارے میں نہیں ہوگی بدائع کی تعلیل سے یہی معلوم ہوتا ہے ’ ملاحظہ ہو: وینقض بالسفر ایضا’ لان توطنہ فی ہذا المقام لیس للقرار’ ولکن لحاجة’ فاذا سافر منہ یستدل بہ علی قضاء حاجتہ فصار معرضا عن التوطن بہ فصار ناقضا لہ دلالة۔ (کتاب الصلاة فصل: والکلامہ فی صلاة المسافر: ط: سعید) امام کاسانی کی مذکورہ تعلیل سے یہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ وطن اقامت کو باطل کرنے والے سفر سے مراد یہ ہے کہ اب یہاں رہائش کی حاجت نہ رہے اور جانے والا اس مقام کی وطنیت کو ختم کردے اور یہ اس سفر میں ہوتا ہے جو کہ بصورت ارتحال ہوتا ہے اور وطن اقامت میں کچھ بھی نہ رہے ۔ اس کے برخلاف جس شہر یا جگہ میں کامل رہائش ہے ’ رہائش کی نیت بھی ہے اور رہائش کا سامان بھی وہی ہیں’ اگرچہ وہ اس کا وطن اصلی نہیں ہے تو یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس شخص نے اپنا وطن اقامت ختم نہیں کیا۔ صاحب بحر نے تصریح کی ہے کہ بقاء ثقل یعنی سامانِ رہائش وغیرہ کے باقی رہنے سے وطن اقامت باقی رہتا ہے ’ اگرچہ دوسری جگہ سفر اختیار کرلے ۔ صاحب بحر کی عبارت ملاحظہ ہو: وفی المحیط: ولوکان لہ اہل بالکوفة واہل بالبصرة’ فمات اہلہ بالبصرة لاتبقی وطنا لہ’ وقیل: تبقی وطنا’ لانہا کانت وطنا لہ بالاہل والدار جمیعا فبزوال احدہما لایرتفع الوطن’ کوطن الاقامة یبقی ببقاء الثقل وان اقام بموضع آخر۔ (باب المسافرج:۲’ ص:۱۳۶’ ط: سعید) ۱ تو اس مسئلہ پر حتمی فتویٰ دلائل اور عبارت کے ساتھ تحریر فرمائیں۔
جواب نمبر: 16685001-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:256-67T/N6/1440
زیر بحث مسئلہ میں دار الافتا دار العلوم دیوبند کا حتمی فتوی وہی ہے، جو آپ نے سوال میں اوپر نقل فرمایا ہے۔ اور یہ فتوی متعلقہ تمام فقہی عبارات اور اکابر کے فتاوی مد نظر رکھ کر ہی لکھا گیا ہے۔ اور شروع سے اب تک تمام اکابر علمائے دیوبند کا یہی موقف اور معمول بہ ہے ۔ اور اگر آپ کو محیط کے جزئیہ سے اشتباہ ہورہا ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ محیط کے جزئیہ کا صحیح مطلب وہ ہے، جو حضرت مفتی محمود صاحب نے فتاوی مفتی محمود (۱۰: ۳۷۸، مطبوعہ: پاکستان) میں ذکر فرمایا ہے۔ اور جزئیہ کے اس مفہوم کی تائید اِس سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ ابن نجیم مصرینے البحر الرائق (۱: ۲۳۹، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)اور داماد آفندینے مجمع الانہر (۱: ۲۴۳، مطبوعہ: دار الکتب العلمیة بیروت)میں اس جزئیہ کو نقل کرنے کے باوجود جب وطن اقامت کے مبطلات پر پہنچے تو مطلق سفر شرعی کو وطن اقامت کا مبطل قرار دیا، اسے کسی قید کے ساتھ مقید نہیں کیا ۔ اور صاحب النہر الفائق نے تو اس جزئیہ سے پہلے کی عبارت محیط سے نقل فرمائی اور اس جزئیہ کو مکمل ترک کردیا (النہر الفائق، ۱: ۳۴۹، مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ بیروت)۔ اور علامہ ابن عابدین شامینے بھی صاحب النہر کی اتباع میں ایسا ہی کیا ہے (شامی، ۲: ۶۱۴، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)۔
اور اگر کسی کو مفتی صاحب موصوف کا بیان کردہ مطلب تسلیم نہ ہو تو دوسرا جواب یہ ہے کہ اس جزئیہ میں محیط سے محیط رضوی مراد ہے اور محیط رضوی میں ظاہر الروایہ، نوادر اور فتاوی وغیرہ سب طرح کے مسائل مخلوط جمع کیے گئے ہیں(حاشیہ شرح عقود رسم المفتی جدید محقق، ص: ۲۵۰)۔اور بہ ظاہر یہ نوادر یا فتاوی کا جزئیہ معلوم ہوتاہے ،اور اکابر علمائے دیوبند کا موقف کتب متون کا جزئیہ ہے، جن میں ظاہر الروایہ کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں، اور ظاہر الروایہ کا کوئی مسئلہ نوادر یا فتاوی کے جزئیہ سے مقید نہیں کیا جاسکتا؛ اس لیے محیط کے اس جزئیہ سے متون میں آئے ہوئے مطلق سفر شرعی کو کسی دوسری قید کے ساتھ مقید کرنا درست نہ ہوگا۔
نیز وطن اقامت،محض نیت اقامت سے وطن ہوتا ہے اور سفر شرعی بہر صورت اقامت کی ضد ہے خواہ سازوسامان کے ساتھ کیا جائے اور آئندہ نہ آنے کے قصد کے ساتھ یا سازوسامان کے بغیر اور آئندہ واپس آنے کے قصد کے ساتھ؛ اس لیے مطلق سفر شرعی وطن اقامت کو باطل کردیتا ہے۔
قال في الخیریة: وحیث علم أن القول ھو الذي تواردت علیہ المتون فھو المعتمد المعمول بہ؛ إذ صرحوا بأنہ إذا تعارض ما في المتون والفتاوی فالمعتمد ما في المتون، وکذا یقدم ما في الشروح علی ما في الفتاوی انتھی، وفي فصل الحبس من البحر: والعمل علی ما في المتون ؛ لأنہ إذا تعارض ما في المتون والفتاوی فالمعتمد ما في المتون کما في أنفع الوسائل، وکذا یقدم ما في الشروح علی ما في الفتاوی انتھی الخ (شرح عقود رسم المفتي، ص: ۳۴۴، ۳۴۵)، وینبغي أن یزید: ”وبضدہ“ کبطلان وطن الإقامة أو السکنی بالسفر فإنہ في البحر علل لذلک بقولہ: ”لأنہ ضدہ“ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ۲: ۶۱۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند