عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 166806
جواب نمبر: 166806
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:241-161/N=3/1440
آگرہ یا کہیں اور سے مسافر ہوکر گڑگاوٴں پہنچنے پر اگر آپ کی نیت مکمل ۱۵/ دن قیام کی نہ ہو تو آپ گڑگاوٴں میں مسافر ہی رہیں گے ، مقیم نہ ہوں گے اور آپ ۴/ رکعت والی نمازوں میں حسب شرائط قصر کریں گے (امداد المفتین، ص: ۳۲۱، ۳۲۲، سوال: ۲۵۱، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی، فتاوی محمودیہ ۷: ۴۹۱ - ۴۹۴، سوال: ۳۵۸۸- ۳۵۹۱، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل، فتاوی رحیمیہ جدید، ۵: ۱۷۷، سوال: ۲۲۵، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی، وغیرہ ) ؛ البتہ آگرہ چوں کہ آپ کا وطن ہے؛ اس لیے آگرہ پہنچنے پر آپ فوراً مقیم ہوجائیں گے اگرچہ وہاں آپ کو صرف ایک، دو روز قیام کرنا ہو اور ۴/ رکعت والی نمازیں بھی مکمل ۴/ رکعت پڑھیں گے۔
فالوطن الأصلي ینتقض بمثلہ لا غیر، وھو أن یتوطن الإنسان في بلدة أخری وینقل الأھل إلیہا من بلدتہ فیخرج الأول من أن یکون وطناً أصلیاً لہ حتی لو دخل فیہ مسافراً لا تصیر صلاتہ أربعاً (بدائع الصنائع، ۱: ۴۹۸، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) ، ویبطل وطن الإقامة بمثلہ وبالوطن الأصلي وبإنشاء السفر، والأصل أن الشیء یبطل بمثلہ وبما فوقہ لا بما دونہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر ۲: ۶۱۴، ۶۱۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، من خرج من عمارة موضع إقامتہ قاصداً مسیرة ثلاثة أیام ولیالیھا ……صلی الفرض الرباعي رکعتین …حتی یدخل موضع مقامہ أو ینوي إقامہ نصف شھر بموضع صالح لھا فیقصر إن نوی في أقل منہ أو …بموضعین مستقلین (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ۲: ۵۹۹- ۶۰۶) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند