• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 166652

    عنوان: عشا کا مستحب وقت کیا ہے؟نیز عشا کے بعد دنیاوی کاروبار کرنا کیسا ہے؟

    سوال: نماز عشاء کی جماعت کے وقت کے متعلق کچھ مسائل ہیں مہربانی کرکے ان پر ذرا روشنی ڈال دیجئے ۔ 1. کیا نماز عشاء تاخیر سے پڑھنا اولیٰ ہے ؟ 2. کیا نماز عشاء کے بعد دنیاوی کاروبار میں اور بات چیت میں مشغول ہونا مکروہ ہے اور سو جانا بہتر ہے ؟ 3. ہمارے علاقے میں عشاء کی نماز گرمیوں میں 9 بج کر 15 منٹ سے لے کر نو بج کر تیس منٹ تک عام طور سے ہوتی ہیں، اس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں، لیکن سردیاں آتے ہیں عشاء کی نماز مت 7 بج کر 15 منٹ اور 7 بج کر 30 منٹ پر عموما سبھی مسجدوں میں ہونے لگتی ہے ۔ 4. مغرب اور عشاء کی نمازوں کے درمیان بہت کم وقت ملتا ہے . ایسا معلوم ہوتاہے کہ عشاء کی نماز کسی جلدی میں پڑھی جا رہی ہو. بازار دکانیں اور کاروبار عشاء کے بعد تک چلتے ہیں اور رات کے کھانے سے بھی آدمی عشاء کے بعد فارغ ہوتا ہے ۔ 5. سوال اصلی یہ ہے کہ اگر شریعت اور سنت اس بات کو پسند کرتی ہے کہ عشاء کی نماز تمام دنیا وی کاموں سے فارغ ہو کر ادا کی جائے جس کے بعد آدمی صرف سونے کی ہی تیاری کرے تو اس نماز کو اول وقتوں میں ادا کرنا بہتر ہے یا تاخیر سے ادا کرنا بہتر ہے ۔ محترم جناب اس سوال کا جواب دے کر میری مدد فرمائیں.

    جواب نمبر: 166652

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 182-36T/SN=04/1440

    تقلیل جماعت کا اندیشہ نہ ہوتو عشاء کی نماز تہائی رات سے کچھ پہلے تک موٴخر کرنا مستحب ہے بالخصوص سردی کے موسم میں ۔ وتأخیر عشاء إلی ثلث اللیل، قیدہ فی الخانیة وغیرہا بالشتاء، أما الصیف فیندب تعجیلہا ․․․․․․ وفی الہدایة وقیل فی الصیف یعجل کما لا تتقلل الجماعة الخ (درمختار مع الشامی: ۲/۲۶، ط: زکریا) ۔

    (۲) عشاء کے بعد تاخیر سے سونے کی صورت میں اگر نماز فجر باجماعت یا اس میں انشراح فوت ہونے وغیرہ کا خوف ہو تو عشاء کے بعد بلاخیر سوجانا بہتر ہے، تاخیر کرنا مکروہ ہے، اگر مذکورہ بالا خوف نہ ہو تو عشاء کے بعد بھی دنیاوی کاروبار وغیرہ میں مصروف رہنے کی گنجائش ہے۔ ویکرہ النوم قبلہا ، والحدیث بعدہا لنہی النبي - صلی اللہ علیہ وسلم- عنہما إلا حدیثاً فی خیر لقولہ - صلی اللہ علیہ وسلم- لا سمر بعد الصلاة ․․․․․ وقال الطحطاوی: انما کرہ النوم قبلہا لمن خشي علیہ فوت وقتہا أو فوت الجماعة فیہا الخ (درمختار مع الشامی: ۲/۲۶، ط: زکریا) ۔

    (۴، ۵) سوال : (۱، ۲)/ کے جوابات کے ضمن ان سوالوں کا جواب بھی آچکا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند