عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 164616
جواب نمبر: 164616
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1477-1336/H=1/1440
توڑنے کا حکم تو اس صورت میں بھی نہیں ہے وإذا خاف فوت رکعتی الفجر لاشتغالہ بسنتہا ترکہا لکون الجماعة اکمل اھ (قولہ ترکہا) ای لا یشرع فیہا ولیس المراد بقطعہا لما مر ان الشارع فی النفل لایقطعہ مطلق اھ درمختار مع الفتاوی رد المحتار فی باب ادراک الفریضة (مطبوعہ نعمانیہ: ۱/۴۸۱)۔
البتہ قرأت کچھ تیز رفتاری سے کرے چھوٹی چھوٹی سورت مثلاً سورہٴ کوثر اور سورہٴ اخلاص پڑھے درود شریف و دعاء چھوڑ دے اور تشہد پر سلام پھیر دے اور جماعت میں شریک ہو جائے (تنبیہ) لوخاف انہ لوصلی سنة الفجر بوجہہا تفوتہ الجماعة ولو اقتصر فیہا بالفاتحة وتسبیحة فی الرکوع والسجود یدرکہا فلہ ان یقتصر علیہا لان ترک السنة جائز لادراک الجماعة فسنة السنة اولیٰ وعن القاضی الزرنجری لو خاف ان تفوتہ الرکعتان یصلی السنة ویترک الثناء والتعوذ وسنة القرأة ویقتصر علی آیة واحدة لیکون جمعا بینہما وکذا فی سنة الظہر اھ (المصدر السایق: ۱/۴۸۲)۔
اگر بالفرض جماعت نکل بھی جائے تب بھی سنت نماز کو نہ توڑے اس لئے کہ جماعت میں شامل ہونے کی نیت اس نے کر رکھی ہے تو امید ہے کہ اس کے ثواب سے وہ محروم نہ ہوگا حدیث شریف میں ہے انما الاعمال بالنیات (بخاری شریف) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند