• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 163811

    عنوان: کیا زوال کا وقت ۲۵ سے ۳۰/ منٹ رہتا ہے؟

    سوال: چنڈی گڈھ کے قریب علاقے میں دو مسجد ہیں جن میں سے ایک مسجد کے امام صاحب کا کہنا ہے کہ زوال کے وقت نماز جنازہ اور تلاوت قرآن 25سے 30منٹ تک جائزنہیں، جبکہ دوسری مسجد کے امام کا کہنا ہے کہ زوال کے وقت نماز جنازہ اور تلاوت قرآن جائزہے ہاں نصف النہار کے وقت جائز نہیں مگر 3یا 4منٹ میں سورج زائل ہو جاتا ہے لہذا اس کے بعد ادا کی جا سکتی ہے ، آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و احادیث کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت اور زوال کے وقت کی صحیح تعیین بتلا کر شکریہ کا موقع دیں۔

    جواب نمبر: 163811

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1183-1067/N=12/1439

    زوال کا وقت نہایت مختصر ومعمولی ہوتا ہے؛ لیکن زوال کا ٹھیک صحیح وقت جاننا آسان نہیں؛ اس لیے صحیح اور معتبر جنتری میں زوال کا جو وقت دیا گیا ہو، احتیاطاً اس سے ۴، ۵/ منٹ پہلے اور ۴، ۵/ منٹ بعد میں کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیے، نماز کے لیے ۲۵، ۳۰/ منٹ کا وقفہ کرنے کی ضرورت نہیں۔

    وفی شرح النقایة للبرجندي: وقد وقع في عبارات الفقہاء أن الوقت المکروہ ھو انتصاف النھار بلا فصل، وفي ھذا القدر من الزمان لا یمکن أداء صلاة فیہ، فلعل المراد أنہ لا تجوز الصلاة بحیث یقع جزء منھا في ھذا الزمان الخ (رد المحتار، أول کتاب الصلاة، ۲: ۳۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، والثاني عند استوائھافي بطن السماء إلی أن تزول أي تمیل إلی جھة المغرب (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوی علیہ، ص: ۱۸۶ط: دار الکتب العلمیہ بیروت)، قولہ: ”والثاني عند استوائھا“: وعلامتہ أن یمتنع الظل عن القصر ولا یأخذ فی الطول وإذا صادف أنہ شرع في ذلک الوقت بفرض قضاء أو قبلہ وقارن ھذا الجزء اللطیف شیئا من الصلاة قبل القعود قدر التشھد فسدت (حاشیة الطحطاوي علی المراقی)، نیز فتاوی محمودیہ (۵: ۳۸۳، ۳۸۴، سوال: ۲۱۷۷، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل)، احسن الفتاوی (۲: ۱۳۸، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی)، اور فتاوی رحیمیہ قدیم (۴: ۲۸۴، ۲۸۵) دیکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند