عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 162103
جواب نمبر: 16210301-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1033-876/N=10/1439
محض شک کی وجہ سے امام صاحب کی اقتدا ترک کرنا اور جماعت چھوڑنا درست نہیں، آپ حسب سابق امام صاحب ہی کی اقتدا میں نماز ادا کرتے رہیں اور جماعت نہ چھوڑیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میرا
سوال یہ ہے کہ زوال کا وقت کب شروع ہوتاہے اورکتنے منٹ کا ہوتا ہے؟ آج کل مسجد میں
زوال کا وقت نہیں لگاتے ہیں اور پتہ لگانے کا طریقہ معلوم نہیں۔ مہربانی ہوگی اگر
آپ طریقہ بتادیں۔ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم زوال کے وقت قرآن کی تلاوت، ذکر
وغیرہ کرسکتے ہیں؟ جب اذان ہوتی ہے کیا اس وقت قرآن کی تلاوت کرسکتے ہیں؟
کیا فرماتے ہیں مفتیان دین قرآن وحدیث کی روشنی میں کہ بعض احباب جو کہ ایک مقامی مسجد کے امام کی خامیوں کے مدنظرکراہیت محسوس کرتے ہوئے اس پیچھے نماز پڑھنے سے گریز کرتے ہیں۔۔۔۔ اس لئے دور دراز مساجد میں جاکر اور تنہاگھروں میں اپنی نماز ادا کرلیتے ہیں۔۔۔بعض مجبوری میں نماز ان کے پیچھے پڑھتے ہیں۔۔۔۔ مذکورہ امام مسجد۔۔ کافی عرصہ سے منصب امامت پر فائض ہے۔۔۔۔۔لیکن وہ مسجد کے مجموعی و اجتماعی چندے میں ہیرا پھیری و غبن کا مرتکب ہے۔۔۔۔۔ایک مکان کی دلالی میں بھی شریک ہو چکا ہے۔۔۔تعویذ غنڈے میں بھی کمیشن لیتا ہے۔۔۔۔۔۔جب کوئی شخص انفرادی طور پر چپ چاپ مسجد کے اخراجات کیلئے مسجد ہذا کے امام کو کچھ رقم دیتا ہے۔۔۔۔۔تو وہ رقم بھی ان کی ملکیت بن جاتی ہے۔۔۔اس کے بوجود نمازیوں کی اکشریت پر وہ ایمانداری کی چھاپ رکھتا ہے۔۔۔۔وہ لوگ حقائق سے ناآشنا ہیں۔بعض لوگ جو آشنا ہیں۔ان کو جھٹلاتا ہے۔وہ بعض لوگ اس کو ہٹانے کی جسارت نہیں رکھتے ہیں۔اس کے پیچھے نماز کی ادائیگی کا مسئلہ ہے۔کیونکہ یہ علاقہ کی اکیلی مسجد ہے۔۔اور نمازیوں کیلئے دور دراز جاکر نماز پڑھنا بھی محال ہے۔۔۔انفرادی نماز بحسیت مجبوری پڑھی جاتی ہے۔۔۔۔بہر حال مذکورہ باتوں اوراجتماعیت کے چندے میں ہیرا پھیری و غبن کو چند لوگ درگذر کے مجاز ہوسکتے ہیں۔۔ جبکہ مسجد کا امام حقائق و ثبوت کے سامنے یہ کہ کر بات ٹال دیتا ہے۔۔کہ اس کو کچھ یاد نہیں۔اور وہ پھر گروہ بندی کا مظاہرہ کرتا ہے۔۔۔۔مظاہرین حقائق سے تصادم کرتے ہیں۔ بہر کیف قرآن وحدیث کے روشنی میں ایسے شخص کے پیچھے نماز کی ادائیگی مذکورہ باتوں کی بنیاد پر درست ہوسکتی ہے۔۔۔براہ کرام رہنمائی فرمائیں۔