• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 161624

    عنوان: جو شخص سجدے سے عاجز ہو، اس سے قیام ساقط ہوجاتا ہے اگرچہ وہ قیام پر قادر ہو

    سوال: زید قیام و رکوع کرنے پر قادر ہے لیکن سچدہ و قعدہ کرنے سے معذور ہے ، کرسی کے استعمال میں زید قیام و رکوع کس طرح کرے گا؟ اگر کرسی پر بیٹھے تو قیام نہ ہوگا، اور قیام کرے تو تصفیت الصف کی خلاف ورزی ہوگی۔ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 161624

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1281-141T/N=12/1439

     جو شخص حقیقی سجدے سے عاجز ہو، یعنی: اس کے لیے اشارے سے نماز پڑھنا جائز ہو، اس سے قیام ساقط ہوجاتا ہے اگرچہ وہ قیام پر قادر ہو؛ کیوں کہ قیام مقصود بالذات رکن نہیں ہے؛ بلکہ اصل اور بنیادی رکن سجدہ ہے اور قیام اس کے لیے وسیلہ ہے؛ اس لیے جب سجدہ ساقط ہوگیا تو قیام بھی ساقط ہوجائے گا؛ لہٰذااگر زید اس درجہ کا معذور ہے کہ وہ حقیقی سجدہ بالکل نہیں کرسکتا اور اس کے لیے کرسی پر بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھنا جائز ہے تو اسے تکبیر تحریمہ کہنے یا قراء ت کرنے کے لیے قیام کرنے کی ضرورت نہیں، وہ شروع ہی سے اپنی پوری نماز کرسی پر بیٹھ کر اشارے سے پڑھے گا۔احنافکے نزدیک صحیح وراجح اور مفتی بہ قول یہی ہے جیسا کہ متعدد کتب فقہ میں اس کی صراحت آئی ہے: چند حوالہ جات حسب ذیل ہیں:

    الف: کتاب الأصل المعروف بالمبسوط للشیبانی (کتاب الطھارة والصلاة، باب صلاة المریض فی الفریضة ۱: ۲۰۷مطبوعہ: عالم الکتب) میں ہے: قلت: فإن صلی وکان یستطیع أن یقوم ولا یستطیع أن یسجد؟ قال: یصلي قاعداً یومي إیماء۔قلت: فإن صلی قائماً یوٴمی إیماء؟ قال: یجزیہ۔

    ب:۔مبسوط سرخسی (کتاب الصلاة، باب صلاة المریض۱: ۲۱۳مطبوعہ: دار المعرفة بیروت، لبنان) میں ہے: وأما إذا کان قادراً علی القیام وعاجزاً عن الرکوع والسجود فإنہ یصلی قاعداً بإیماؤسقط عنہ القیام؛ لأن ھذا القیام لیس برکن؛ لأن القیام إنما شرع لافتتاح الرکوع والسجود بہ فکل قیام لا یعقبہ سجود لا یکون رکناً، ولأن الإیماء إنما شرع للتشبہ بمن یرکع ویسجد، والتشبہ بالقعود أکثر، ولھذا قلنا بأن الموٴمیٴ یجعل السجود أخفض من رکوعہ؛ لأن ذلک أشبہ بالسجود، إلا أن بشراً یقول: إنما سقط عنہ بالمرض ما کان عاجزاً عن إتیانہ، فأما فیما ھو قادر علیہ لا یسقط عنہ ولکن الانفصال عنہ علی ما بینا۔

    ج:۔الاختیار لتعلیل المختار (کتاب الصلاة، باب صلاة المریض۱: ۱۰۳مطبوعہ: دار الرسالة العالمیة) میں ہے: قال: (فإن عجز عن الرکوع والسجود وقدر علی القیام أومأ قاعداً)؛ لأن فرضیة القیام لأجل الرکوع والسجود؛ لأن نھایة الخشوع والخضوع فیھما، ولھذا شرع السجود بدون القیام کسجدة التلاوة والسھو، ولم یشرع القیام وحدہ، وإذا سقط ما ھو الأصل في شرعیة القیام سقط القیام، ولو صلی قائما موٴمیا جاز، والأول أفضل؛ لأنہ أشبہ بالسجود۔

    د:۔رد المحتار (کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، مطلب بحث القیام، ۲: ۱۳۲، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) میں ہے: قولہ: (فلو قدر علیہ) أي: علی القیام وحدہ أو مع الرکوع کما فی المنیة۔قولہ: (ندب إیماوٴہ قاعداً) أي: لقربہ من السجود، وجاز إیماوٴہ قائماً کما فی البحر، وأوجب الثاني زفر والأئمة الثلاثة؛ لأن القیام رکن، فلا یترک مع القدرة علیہ۔ ولنا أن القیام وسیلة إلی السجود للخرور، والسجود أصل؛ لأنہ شرع عبادة بلا قیام کسجدة التلاوة، والقیام لم یشرع عبادة وحدہ، حتی لو سجد لغیر اللہ تعالی یکفر بہ بخلاف القیام۔ وإذا عجز عن الأصل سقطت الوسیلة کالوضوء مع الصلاة والسعي مع الجمعة۔ وما أوردہ ابن الھمام أجاب عنہ في شرح المنیة الخ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند