• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 161601

    عنوان: تجویدی غلطی کی بنیاد پر امات سے معزولی کا مطالبہ کرنا؟

    سوال: سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرح متین اس مسئلے کی بابت کہ ہمارے ہاں ایک بڑی مسجد میں ایک امام صاحب ہیں جو کہ نائب خطیب بھی ہیں۔ امام صاحب باقاعدہ عالم بھی ہیں اور انہوں نے کراچی کے ایک بہت بڑے مدرسے (دارالعلوم، کراچی) سے افتاء بھی کر رکھا ہے ۔ پڑھنے پڑھانے والے شریف النفس، متقی اور سنجیدہ مزاج آدمی ہیں۔ مسجد میں چند نمازیوں کو اعتراض ہے کہ ان کی قرأت درست نہیں تجوید کی غلطیاں بھی کرتے ہیں اور کچھ تو محض یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے وہ دل پہ بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ گنتی کے دو یا چار آدمیوں کو چھوڑ کر باقی تمام معترضین نہ تو باقاعدہ قاری ہیں نہ ہی تجویدی قواعد اور اس سے ہونے والے فسادِ نماز سے واقف۔ جبکہ امام صاحب خود مفتی بھی ہیں اور وفاق المدارس سے حفظ وقرأت میں باقاعدہ اچھے نمبروں سے سند یافتہ ہیں۔ مزید برآں ان دو چار معترضین کو چھوڑ کر باقی سب نمازی جن میں عالم، حافظ اور قاری حضرات بھی شامل ہیں سب امام صاحب کی قرأت اور تجوید سے نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ اسکی قدر بھی کرتے ہیں۔ معترضین کے علاوہ باقی مقتدی قاری، امام صاحب کی تلاوت بغور سُن کر یہ رائے رکھتے ہیں کہ امام نہ صرف یہ کہ کسی لحن جلی کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں بلکہ لحن خفی سے بھی محفوظ معلوم ہوتے ہیں۔ جسکی تصدیق علاقے کے دوسرے مجود قرا حضرات سے بھی کروا لی گئی ہے ۔ وضاحت طلب امر یہ ہے کہ اس قضیے کی بنیاد پر چند معترضین کا مذکورہ امام صاحب کو امامت سے سبکدوش کرنے کا مطالبہ جائز ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 161601

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1097-125T/sd=8/1439

    اگر مذکورہ امام صاحب نماز میں قرآن کی تلاوت صحیح کرتے ہیں، مقامی قراء حضرات نے باقاعدہ امام صاحب کی قراء ت سن کر اطمینان کا اظہار کیا ہے تو دو چار مقتدیوں کے اعتراض کا شرعا کوئی اعتبار نہیں ہے اور ان کا امام صاحب کو سبکدوش کرنے کا مطالبہ کرنا بھی جائز نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ مقامی معتبر مفتیان کرام سے بھی رجوع کرلیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند