• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 160866

    عنوان: سعودی عرب میں عصر کی نماز مثلین سے پہلے پڑھنا

    سوال: ہم تلنگانہ ، ہندوستان ، کے رہنے والے ہیں اور سعودی عرب میں ملازمت کررہے ہیں، ہمیں یہاں حنفی اور شافعی اوقات نماز کی وجہ سے عصر کی نماز پرھنے کے سلسلے میں پریشانی ہورہی ہے، یہاں کے لوگ شافعی اوقات نماز کے مطابق عصر کی نماز پرھتے ہیں ، مگر ہم چونکہ سنی ہیں ، توہم کیا کریں؟ میں اس بارے میں نے ایک مفتی صاحب سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ؛” اگر سنی وقت کے مطابق پڑھنے کے لیے آپ کے پاس وقت ہے تو سنی وقت کے حساب سے ہی عصر ادا کریں، یا کوئی پریشانی ہوتی ہے جیسے اجازت نہیں ملتی ہے یا اور کوئی تو انہی کے ساتھ جماعت میں شامل ہوجائیں“۔ مگر ایک دوسرے مفتی صاحب نے کہا کہ جب تک سعودی عرب میں ہیں شافعی مسلک کے حساب سے پڑھ سکتے ہیں ، کیوں کہ یہاں جماعت شافعی وقت کے حساب سے ہی ہوتی ہے۔ الگ الگ مفتی صاحب سے الگ الگ جواب ملا ہے، آپ سے گذارش ہے کہ متفقہ فتوی دیں۔

    جواب نمبر: 160866

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:896-108T/N=8/1439

     پہلے مفتی صاحب نے جو جواب دیا، وہ احوط اور مناسب ہے، آپ سعودی عرب میں اسی پر عمل کریں؛ کیوں کہ احناف کے نزدیک مفتی بہ قول کے مطابق عصر کا وقت مثلین کے بعد شروع ہوتا ہے ؛ البتہ صاحبینکا مسلک یہ ہے کہ عصر کا وقت مثل اول کے بعد شروع ہوجاتا ہے، ہرچند کہ جمہور احناف کے نزدیک صاحبین کا قول مفتی بہ نہیں ہے، نیز اس میں فراغ ذمہ بھی کسی درجہ میں مشکوک رہتا ہے، پھر بھی ضرورت وحاجت کے وقت اگرکوئی اس پر عمل کرتا ہے تو گنجائش ہوگی؛ کیوں کہ بعض احناف نے صاحبین ہی کے قول کو صحیح قرار دیا ہے؛ البتہ احتیاط اس میں ہے کہ حتی الامکان عصر کی نماز مثلین کے بعد ہی پڑھی جائے۔

    نوٹ:۔ حرمین کا مسئلہ اپنی خاص فضیلت کی وجہ سے اس سے مستثنی ہے، وہاں عصر کی نماز حرم مکی یا حرام نبوی کے امام ہی کی اقتدا میں ادا کرنی چاہیے اگرچہ مثلین کے بعد پڑھی جائے۔

    (ووقت الظہر من زوالہ)… (إلی بلوغ الظل مثلیہ)، وعنہ مثلہ، وہو قولہما وزفر والأئمة الثلاثة، قال الإمام الطحطاوي: وبہ نأخذ، وفي غرر الأذکار:وھو المأخوذ بہ، وفی البرھان: وھو الأظھر لبیان جبریل، وھو نص فی الباب، وفی الفیض: وعلیہ عمل الناس الیوم، وبہ یفتی، (سوی فیٴ یکون للأشیاء قبل (الزوال) (الدر المختار مع رد المحتار، أول کتاب الصلاة، ۲: ۱۴، ۱۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ:”‘إلی بلوغ الظل مثلیہ“ھذا ظاھر الروایة عن الإمام، نھایة، وھو الصحیح، بدائع ومحیط وینابیع، وھو المختار، غیاثیة، واختارہ الإمام المحبوبي وعول علیہ النسفي وصدر الشریعة، تصحیح قاسم، واختارہ أصحاب المتون وارتضاہ الشارحون، فقول الطحاوي: ”وبقولھما نأخذ“ لا یدل علی أنہ المذھب، وما فی الفیض من ”أنہ یفتی بقولھما فی العصر والعشاء“ مسلم فی العشاء فقط علی ما فیہ وتمامہ فی البحر۔ …۔قولہ:”وھو نص فی الباب“ فیہ أن الأدلة تکافأت ولم یظھر ضعف دلیل الإمام؛ بل أدلتہ قویة أیضا کما یعلم من مراجعة المطولات وشرح المنیہ، وقد قال فی البحر: لا یعدل عن قول الإمام إلی قولھما أو قول أحدھما إلا لضرورة من ضعف دلیل أو تعامل بخلافہ کالعة وإن صرح المشایخ بأن الفتوی علی قولھما کما ھنا۔ قولہ:”وعلیہ عمل الناس الیوم“: أي: في کثیر من البلاد، والأحسن ما فی السراج عن شیخ الإسلام أن الاحتیاط أن لا یوٴخر الظہر إلی المثل، وأن لا یصلي العصر حتی یبلغ المثلین لیکون موٴدیا للصلاتین في وقتھما بالإجماع، وانظر ھل إذا لزم من تأخیرہ العصر إلی المثلین فوت الجماعة یکون الأولی التأخیر أم لا؟ والظاھر الأول بل یلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام تأمل، ثم رأیت في آخر شرح المنیة: ناقلاً عن بعض الفتاوی أنہ لو کان إمام محلتہ یصلی العشاء قبل غیاب الشفق الأبیض فالأفضل أن یصلیھا وحدہ بعد البیاض (رد المحتار) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند