• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 160283

    عنوان: نماز کی رکعتوں میں بہ کثرت شک ہو تو کیا حکم ہے؟

    سوال: اگر کسی کو ہر نماز میں بھول ہو کہ کتنی رکعات پڑھی ہے، تو وہ کیا کرے؟ اگر کوئی شخص اس سوچ میں ہو کہ یہ تیسری رکعات ہے یا چوتھی، تو وہ اس کو ایک کم ہی مانے اور اس رکعات میں بیٹھ کر التحیات پڑھے اور پھر اگلی رکعات کے لئے کھڑا ہو جائے اور رکعات پوری کرکے سجدہٴ سہو کرلے، اس طرح اس کی چار ہوئیں یا پانچ، نہیں معلوم، تو کیا اس طرح اس کی نماز ہو جائے گی؟ یا پھر سے دوبارہ پڑھنی ہوگی؟ یعنی جب بھی بھولے اسی طرح سے بھولی ہوئی رکعات میں بیٹھے اور التحیات پڑھ کر اگلی رکعات پوری کرے اور سجدہٴ سہو کرے، اور ہر بھول پر ایک رکعات کم مان کر چلے وہ صحیح ہو یا ایک زیادہ، کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟ مزید کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ نماز میں اس طرح کی بھول نہ ہو۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 160283

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:878-159T/sn=8/1439

    جس شخص کو بہ کثرت شک ہوتا رہتا ہے؛ اس کے لیے حکم یہ ہے کہ غالب گمان پر عمل کرکے اسی پر بنا کرے، اگر کسی طرف غالب گمان نہ ہو تو اقل کو لے لے مثلاً اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ تین رکعات ہوئیں یا چار تو اگر غالب رجحان چار کا ہو تو چار رکعت مان کر نماز حسب ضابطہ مکمل کرلے، سجدہٴ سہو کی ضرورت نہیں، اگر رجحان کسی طرف نہ ہو تو اقل یعنی تین رکعت مان کر نماز مکمل کرلے؛ البتہ اس صورت میں تیسری رکعت پر بیٹھ کر التحیات پڑھے گا، پھر کھڑے ہوکر ایک رکعت مزید پڑھے گا اور اخیر میں سجدہٴ سہو کرکے سلام پھیرے گا۔

    وإن کثر شکہ عمل بغالب ظنہ إن کان لہ ظن للحرج وإلا أخذ الأقل لتیقّنہ، وقعد في کل موضع توہّمہ موضع قعودہ الخ (درمختار مع الشامی: ۲/ ۵۶۱، ط: زکریا)

    نوٹ: بہشتی زیور میں سجدہٴ سہو کے بیان میں یہ مسئلہ کسی قدر تفصیل سے موجود ہے، اس کا مطالعہ بہت ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند