عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 160120
جواب نمبر: 160120
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:812-89T/sd=7/1439
طلوع آفتاب کا اعلان کرنا زمانہ خیر القرون سے ثابت نہیں ہے ، صحابہ کرام اور سلف صالحین کے زمانے میں اس اعلان کے اہتمام کا کہیں ثبوت نہیں ملتا، بلکہ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص جو نماز میں سستی برتتا ہو مکروہ وقت میں نماز پڑھے ، تو اُس کو روکا نہ جائے اس لیے کہ اس وقت روکنے سے ممکن ہے کہ وہ بعد میں بالکل چھوڑ دے ، نیز اس اعلان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ ہی قضائے صلاة کا مرتکب ہے ، اس لیے یہ اعلان واجب الترک ہے ، یہ ایک غیر لازم چیز کو لازم قرار دینا ہے ، مسلمان کو خود خیال رکھتے ہوئے صحیح وقت پر نماز کی ادائے گی کی فکر رکھنا چاہیے ؛ البتہ نماز کے اوقات کے بورڈ میں یہ لکھنے میں مضائقہ نہیں کہ فجر کی قضاء طلوع شمس کے بیس منٹ بعد اداء کی جائے ۔
عائشة رضی اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فہو رد۔( البخاری: کتاب الصلح ، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود، رقم: ۲۶۹۷) و أخرج مسلم بسندہ عنہا مرفوعاً بلفظ: من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا، فہو رد ۔(صحیح مسلم، کتاب الأقضیة، باب کراہیة قضاء القاضی و ہو غضبان، رقم: ۱۷۱۸) قال الملا علی القاری: ہذا الحدیث أعم و ہذا الحدیث عماد فی التمسک بالعروة الوثقی، وأصل فی الاعتصام بحبل اللّٰہ الأعلی، ورد للمحدثات والبدع والہوی۔( مرقاة المفاتیح، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنة، رقم:۱۴۰) وقال نقلاً عن النووی: البدعة کل شیء عمل علی غیر مثال سبق، و فی الشرع: احداث مالم یکن فی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔( مرقاة المفاتیح:۱/۳۳۷، بیروت) وقال ابن نجیم: کسالی العوام اذا صلوا الفجر وقت الطلوع لا ینکر علیہم، لأنہم منعوا یترکونہا أصلا ًظاہراً ، ولو صلوہا تجوز عند أصحاب الحدیث، والأداء الجائزُ عند البعض أولی من الترک۔ (البحر الرائق:۱/۲۵۱، رد المحتار: ۲/۳۰، زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند