• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 160071

    عنوان: شرعاً لڑکی لڑکے کو کیسے ”طلاق“ دے سکتی ہے؟

    سوال: مفتی صاحب! میری لڑکی کا نکاح ۲۳/ جنوری ۲۰۱۵ء کو ہوا تھا۔ شادی کے بعد اس کے گھر والے اور لڑکی کے شوہر نے بہت ظلم کیا۔ پھر بھی وہ وہاں رہی، اسے ابھی ۹/ ماہ کی لڑکی ہے۔ ابھی لڑکی نے اپنے شوہر کا گھر چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ لڑکا (شوہر) ایک ہندو لڑکی کو لے کر بھاگ گیا ہے۔ اب میری لڑکی وہ لڑکے کو ”طلاق“ دینا چاہتی ہے۔ مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ شرعاً لڑکی لڑکے کو کیسے ”طلاق“ دے سکتی ہے؟ مجھے جلد سے جلد اپنی لڑکی کو یہاں سعودی عرب بلا لینا ہے۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 160071

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:781-721/M=7/1439

    اگر یہ سچ اور ثابت ہے کہ لڑکی پر اس کے شوہر نے بہت ظلم کیا ہے تو اس کے شوہر کو سمجھایا جائے، اسے جزا سزا کا خوف دلایا جائے اور اسے بتایا جائے کہ اگر اس نے بیوی پر ظلم کیا اور اس کے واجبی حقوق ادا نہ کیے تو بروزِ قیامت مواخذہ ہوگا، اگر شوہر کی سمجھ میں آجائے اور وہ ظلم وتعنت سے باز آجائے اور آپس میں زوجین معافی تلافی کرلیں تو لڑکی کو اس کے شوہر کے پاس بھیج دینا چاہیے اور رشتہٴ نکاح ختم نہیں کرنا چاہیے بلکہ جہاں تک ممکن ہو اسے نباہنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اگر شوہر کو سمجھانے کے باوجود وہ ظلم تعنت پر قائم رہے اور بیوی کے حقوق ادا نہ کرے تو اس سے طلاق لی جاسکتی ہے، اگر طلاق نہ دے تو کچھ مال وغیرہ کے بدلے طلاق حاصل کرنے کی کوشش کی جائے کیوں کہ طلاق کا اختیار شوہر ہی کو حاصل ہے بیوی اپنے شوہر کو طلاق نہیں دے سکتی، ہاں اگر شوہر نے خیارِ طلاق بیوی کو سونپ دیا ہو تو الگ بات ہے، اس صورت میں عورت کو اختیار ہوتا ہے، اگر شوہر مال کے بدلے بھی طلاق نہ دے تو اسے خلع کے لیے آمادہ کرلیا جائے یعنی بیوی یہ کہے کہ میں اپنا مہر معاف کرتی ہوں اس کے بدلے مجھے اپنی زوجیت سے آزاد کردو، اور شوہر اس کو منظور کرتے ہوئے خلع دیدے تو اس سے ایک طلاق بائن پڑجائے گی اور اگر اس کے لیے بھی شوہر تیار نہ ہو اور بیوی بناکر رکھنے پر بھی آمادہ نہ ہو تب ایسی صورت میں یہ معاملہ شرعی پنچایت میں دائر کیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند