• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 159552

    عنوان: کیا کان بہنے والے شخص کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے

    سوال: السلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ بعد سلام عرض ہے کہ میں ایک مندرجہ ذیل مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں مسئلہ یہ ہے کہ ہماری مسجد کے امام جن کا نام عاقل ہے وہ ہماری مسجد میں نماز پڑھاتے ہیں ان کے پہلے ‏ ‏ کا ن بہا کرتے تھے اور وہ کہتے ہیں کہ اب میرے کان ٹھیک ہیں چاہے ڈاکری کرالو لے جا کر لیکن گاؤں والے کہتے ہیں کہ ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ہم سے ایک عالم دین نے بتایا ہے کہ وہ عالم دین کہتے ہیں کہ اگر کسی امام کے اندر نقص آجائے تو اس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ہے جیسا کہ کان کا بہنا وہ عالم دین نے سارے گاؤں کو ورغلا رکھا ہے کے اس مسجد کے امام کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ہے اب مسئلہ دار العلوم کے مفکر اساتذہ محقق عالم دین سے یہ پوچھنا ہے کی کیا کان بہنے والے شخص کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے سورۃ مسئلہ کے اندر جو صورت بیان کی گئی ہے اس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں اور اگر کان بہنے والے شخص کے پیچھے نماز نہیں ہوتی تو کس درجے کا آدمی ہے یعنی اس کا کان کتنا بہ جائے کہ اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی اور وہ جو عالم دین کہ رہے ہیں کہ کسی امام کے اندر نقص ہو بدن کے اندر تو وہ کہاں تک درست ہے اس کی وضاحت فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں

    جواب نمبر: 159552

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:747-75T/sd=6/1439

     صورتِ مسئولہ میں اگر امام صاحب کا کان ٹھیک ہوگیا اور ان کے اندر امامت کے اوصاف پائے جاتے ہیں، تو اب ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کیا اعتراض ہے ؟ جسم میں نقص کا ہونا مطلق کراہت کا سبب نہیں ہے ، بلکہ جس نقص سے لوگوں کو طبعا کراہت ہو، جیسے : برص وغیرہ کی بیماری، تو ایسے شخص کو امام بنانا مکروہ ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ کان بہنے میں اگر صرف پانی نکلتا ہے اور وہ بھی تکلیف کے بغیر، تو چونکہ اس سے وضوء نہیں ٹوٹتا ، اس لیے ایسے شخص کی امامت مکرو ہ نہیں ہوگی اور اگر کان بہنے میں مواد یا خون یا تکلیف کے ساتھ صرف پانی نکل کر ایسی جگہ تک بہہ جاتا ہے ، جس کا وضوء یا غسل میں دھونا ضروری ہے ،تو ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہوگا ۔

    قال الحصکفی : (کما) لا ینقض (لو خرج من أذنہ) ونحوہا کعینہ وثدیہ (قیح) ونحوہ کصدید وماء سرة وعین (لا بوجع) وإن خرج (بہ) أی بوجع (نقض) لأنہ دلیل الجر۔۔۔قال ابن عابدین ؛ (قولہ: لا بوجع) تقیید لعدم النقض بخروج ذلک، وعدم النقض ہو ما مشی علیہ الدرر والجوہرة والزیلعی معزیا للحلوانی.قال فی البحر: وفیہ نظر، بل الظاہر إذا کان الخارج قیحا أو صدیدا لنقض، سواء کان مع وجع أو بدونہ لأنہما لا یخرجان إلا عن علة، نعم ہذا التفصیل حسن فیما إذا کان الخارج ماء لیس غیر. اہ. وأقرہ فی الشرنبلالیةح ۔۔۔۔۔وأنت خبیر بأن الخروج دلیل العلة ولو بلا ألم، وإنما الألم شرط للماء فقط، فإنہ لا یعلم کون الماء الخارج من الأذن أو العین أو نحوہا دما متغیرا إلا بالعلة والألم دلیلہا بخلاف نحو الدم والقیح.ولذا أطلقوا فی الخارج من غیر السبیلین کالدم والقیح والصدید أنہ ینقض الوضوء ولم یشترطوا سوی التجاوز إلی موضع یلحقہ حکم التطہیر، ولم یقیدوہ فی المتون ولا فی الشروح بالألم ولا بالعلة، فالتقیید بذلک فی الخارج من الأذن مشکل لمخالفتہ لإطلاقہم ۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۱۴۸/۱، کتاب الوضوء، ط: دار الفکر، بیروت ) قال الحصکفی : وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ ۔ قال ابن عابدین : (قولہ ومفلوج وأبرص شاع برصہ) وکذلک أعرج یقوم ببعض قدمہ، فالاقتداء بغیرہ أولی تتارخانیة، وکذا أجذم برجندی، ومجبوب وحاقن، ومن لہ ید واحدة فتاوی الصوفیة عن التحفة. والظاہر أن العلة النفرة، ولذا قید الأبرص بالشیوع لیکون ظاہرا۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۵۶۲/۱، باب الامامة ، ط: دار الفکر، بیروت ) 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند