• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 159460

    عنوان: ”ض“ کو ”ز“ یا ”ذال“ وغیرہ پڑھنا ؟

    سوال: میں حرف "ض" کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ ض (داد) ہے یا ض(زاد) ۔ عرب ممالک کے قراء حضرات اسے ض (داد) پڑھتے ہیں جبکہ ہندوستان اور پاکستان میں اکثر قاری صاحبان اسے ض(زاد) پڑھتے ہیں ۔مہربانی کرکے اچھی طرح یہ مسئلہ سمجھائیے ۔ مطلب یہ نہیں ہے کہ پورا داد یا زاد، ظاد ہی پڑھتے ہیں بلکہ ان جیسی آواز نکالتے ہیں ۔ پُر برابر پڑھتے ہیں اور اپنے مخرج سے بھی ادا کرتے ہیں بس آواز میں ان حروف کے ساتھ ملا دیتے ہیں ۔

    جواب نمبر: 159460

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:793-721/L=7/1439

    لفظِ ضاد یہ مستقل حرف ہے یہ نہ دال ہے اور نہ زاد اس کو کسی دوسرے حرف کے ساتھ بالقصد مشابہ کرکے نہیں پڑھنا چاہیے، لیکن اس کے مخرج سے ادا کرنے کے باوجود پھر بھی کسی دوسرے حرف کی آواز میں تبدیل ہوجائے تو فقہاء کے یہاں اس کی گنجائش ہے اس سے نماز فاسد نہ ہوگی۔

    وإن ذکر حرفا مکان حرف وغیر المعنی فإن أمکن الفصل بین الحرفین من غیر مشقة کالطاء مع الصاد فقرأ الطالحات مکان الصالحات تفسد صلاتہ عند الکل وإن کان لا یمکن الفصل بین الحرفین إلا بمشقة کالظاء مع الضاد والصاد مع السین والطاء مع التاء اختلف المشائخ فیہ قال أکثرہم لا تفسد صلاتہ ولو قرأ الظالمین بالظاء أو بالذال لا تفسد صلاتہ ولو قرأ الذالین بالذال تفسد صلاتہ․ (فتاوی قاضی خان/ ۱/ ۱۴۱، ۱۴۳، ط: رشیدیہ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند