عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 158015
جواب نمبر: 158015
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:433-349/N=4/1439
قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہائے احناف کی تحقیق یہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کے لیے قراء ت جائز نہیں ہے، امام کی قراء ت مقتدی کی قراء ت ہوتی ہے خواہ مقتدی اور امام دونوں ایک ہی فرض یا نفل نماز پڑھنے والے ہوں یا امام فرض نماز پڑھنے والا اور مقتدی نفل پڑھنے والا ہو؛ اس لیے فرض پڑھنے والے امام کی اقتدا میں نفل پڑھنے والا مقتدی کسی بھی رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورت نہیں پڑھے گا۔
وصح أن معاذاً کان یصلي مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم نفلاً وبقومہ فرضاً (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲: ۳۲۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”وصح أن معاذاً الخ“: أي: صح عند أئمتنا وترجح … وھو ما فی الصحیحین:” أن معاذاً کان یصلي مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء الآخرة ثم یرجع إلی قومہ فیصلي بھم تلک الصلاة“،……قال الإمام القرطبي فی المفھم: الحدیث یدل علی أن صلاة معاذ مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم کانت نافلة وکانت صلاتہ بقومہ ھي الفریضة، وتمامہ في حاشیة نوح أفندي وفتح القدیر (رد المحتار)، ثم اقتدی بالإمام- المفترض- متنفلاً (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب إدراک الفریضة، ۲: ۵۰۶)، والموٴتم لا یقرأ مطلقاً فإن قرأ کرہ تحریماً (تنویر الأبصار مع الدر والرد ، باب صفة الصلاة، فصل فی القراء ة، ۲: ۲۶۶)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند