عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 157948
جواب نمبر: 157948
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:430-355/N=4/1439
یہ بات صحیح ہے کہ قرآن کریم میں بعض مقامات پر زبر، زیر ، پیش کی غلطی سے ایسے فحش معنی پیدا ہوجاتے ہیں کہ ان کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، جیسے: ﴿وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰھمَ رَبُّہالخ﴾میں اگر زبر کو پیش سے اور پیش کو زبر سے بدل کر یوں پڑھا جائے تو ﴿وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰھمُ رَبَّہالخ﴾ تویہ ایسی غلطی ہے کہ اس سے ایسے فحش معنی پیدا ہوتے ہیں، جن کا اعتقاد کفر ہے، یعنی: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پروردگار کو چند احکامات کے ذریعہ آزمایا ؛ جب کہ صحیح مطلب یہ ہے: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے پروردگار نے چند احکامات کے ذریعہ آزمایا۔
لیکن قرآن پاک میں حفاظ کرام سے اس طرح کی جو غلطی ہوتی ہے ، وہ عام طور پر یاد داشت کی کمی وغیر کی وجہ سے ہوتی ہے، جان بوجھ کر کوئی حافظ غلط نہیں پڑھتا ۔ اور فقہاء نے فرمایا: اگر غلطی سے زبان پر کفریہ جملہ آجائے تو آدمی بالاتفاق کافر نہیں ہوتا؛ اس لیے آپ پریشان نہ ہوں، حفاظ کرام کی اس طرح کی غلطیوں کی وجہ سے کفر کا حکم نہیں ہوتا؛ البتہ آپ زبانی کی طرح دیکھ کر بھی قرآن پاک کی تلاوت کیا کریں اور حسب موقع کسی جید حافظ کو دور بھی سنایا کریں ؛تاکہ اگر آپ کے قرآن میں اس طرح کی کوئی غلطی ہو تو دور ہوجائے۔ اور اگر ہر سال رمضان میں تراویح میں پڑھا جانے والا پارہ یاد کرکے کسی جید حافظ کو سنادیا کریں تو یہ بہت مناسب صورت ہے۔
ومن تکلم بھا- بکلمة الکفر- مخطئاً أو مکرھا لا یکفر عند الکل (رد المحتار، کتاب الجھاد، باب المرتد، ۶: ۳۵۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند ناقلاً عن البحر)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند