• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 157250

    عنوان: تنہا بغیر اذان واقامت كے نماز پڑھنا

    سوال: سوال: میں ایک سرکاری ٹیچر ہوں اور ہندوؤں کے ایک گاؤں میں پڑھاتا ہوں میں اسکول میں ہی ظہر کی نماز ادا کرتا ہوں کیا مجھے وہاں اذان و تقبیر کہ کر نماز پڑھنی چاہیے میں نے اب تک بنا اذان وتقبیر کے نماز پڑھی ہے ۲ کیا ہر رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے اور یہ سنت ہے یا مستحب کیا سورہ فاتحہ کے بعد پڑھی جانے والی۳ سورہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے اور یہ سنت ہے یا مستحب ۔

    جواب نمبر: 157250

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:249-253/M=4/1439

    (۱) صورت مسئولہ میں اگر آپ اکیلے ہوتے ہیں تو بغیر اذان واقامت کے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اذان کہہ لینا بہتر ہے إذا صلی رجل فی بیتہ واکتفی بأذان الناس وإقامتہم أجزاہ من غیر کراہة وفي التجرید: وإن أذن فہو أفضل (تاتارخانیة)

    (۲) ہررکعت میں سورہٴ فاتحہ سے پہلے سراً بسم اللہ پڑھ لینا بہتر ہے، وسمي سرّا في اول کل رکعة (درمختار) وفي الشامیة: وذکر في المصفی: أن الفتوی علی قول أبي یوسف أنہ یسمی في أول کل رکعة رکعة ویخفیہا، وذکر في المحیط: المختار قول محمد وہو أن یسمي قبل الفاتحة وقبل کل سورة في کل رکعة (شامي)

    (۳) سورہٴ فاتحہ اور سورہ کے درمیان میں بسم اللہ پڑھنا حنفیہ کے نزدیک اگرچہ مسنون نہیں لیکن پڑھ لینا بہتر ہے۔ لا تسن بین الفاتحة والسورة مطلقًا ولو سریة ولا تکرہ اتفاقًا․ وفي الشامي: ولہذا شرح في الذخیرة والمجتبی بأنہ إن سمي بین الفاتحة والسورة المقروء ة سرًا أو جہرًا کان حسنًا عند أبي حنیفة الخ (شامي)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند