عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 156532
جواب نمبر: 156532
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:108-175/D=3/1439
اذان کا جواب دینا مستحب ہے، اور متعدد مسجدوں کی اذانیں اگر مختلف اوقات میں ہوتی ہوں، تو ایسی صورت میں صرف پہلی اذان کا جواب دینا کافی ہوتا ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کو چاہیے کہ آپ پہلی اذان کا جواب دے دیا کریں، پھر اپنی تلاوت اور تسبیح وغیرہ میں مشغول ہوجایا کریں، ولا یقرأ السامع ولا یسلّم ولا یردّ السلام ولا یشتغل بشيء سوی الإجابة (البحر الرائق: ۱/ ۴۵۰) وفي فتاوی قاضیخاں: اجابة الموٴذن فضیلة وإن ترکہا لا یأثم (المرجع السابق) وقد ذہب النووي إلی استحباب الإجابة (مرقاة المفاتیح: ۲/۳۲۹) سئل ظہیر الدین عمن سمع الأذان في آن من جہات ما ذا یجب علیہ قال: إجابة أذان مسجدہ بالفعل، وقال في الفتح: وہذا لیس مما نحن فیہ إذ مقصود السائل أي موٴذن یجیب باللسان استحبابًا أو وجوبًا، والذي ینبغي إجابة الأول سواء کان موٴذن مسجدہ أو غیرہ، فإن سمعہم معًا أجاب معتبرًا کون إجابتہ لموٴذن مسجدہ (الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۷۱)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند