• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 156314

    عنوان: پنج وقتہ نمازوں کے سنن و نوافل کو گھر پر پڑھنا زیادہ بہتر ہے یا مسجد میں

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے پنج وقتہ نمازوں کے سنن و نوافل کو گھر پر پڑھنا زیادہ بہتر ہے یا مسجد میں شریعت کا حکم کیا ہے نبی کا کیا طریقہ ہے ؟

    جواب نمبر: 156314

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:202-170/N=3/1439

    (۱):حضرت اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سنن ونوافل گھروں میں پڑھنے کی ترغیب فرمائی ہے اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عام طور پر سنن ونوافل گھر ہی میں ادا فرماتے تھے اور فقہائے کرام نے بھی فرمایا: تراویح، تحیة المسجد ودیگر بعض نوافل کے علاوہ عام نوافل اورپنجوقتہ نمازوں کی سنن ونوافل گھر پر پڑھنا افضل ہے؛ البتہ فقہاء نے یہ بھی فرمایا: اگر گھر پہنچ کر سنتیں چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو یا گھر میں خشوع وخضوع کم ہو تو ایسی صورت میں پنج وقتہ نمازوں کی سنن ونوافل مسجد ہی میں پڑھنا افضل ہوگا؛ کیوں کہ خشوع وخضوع اور اخلاص کی رعایت زیادہ اہم ہے۔ اور اب جب کہ غیر مقلدین سنن موٴکدہ کو مانتے ہی نہیں اور نہ ہی ان کا اہتمام کرتے ہیں؛ بلکہ سلام پھیر کر دعا مانگے بغیر اٹھ کر چلے جاتے ہیں؛ اس لیے ان کی ظاہری مشابہت اور تائید وغیرہ سے بچنے کے لیے ہمارے اکابر نے فرمایا: سنن موٴکدہ مسجد ہی میں پڑھنا افضل ہے۔

    چناں چہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا:فی نفسہ افضل یہ ہے کہ سنن موٴکدہ گھر میں پڑھی جائیں، لیکن ایک امر عارض کی وجہ سے اب افضل یہ ہے کہ سنن موٴکدہ مسجد ہی میں پڑھی جائیں؛کیوں کہ ایک جماعت سنن موٴکدہ کی منکر پیدا ہوگئی ہے؛اس لیے گھر میں سنتیں پڑھنے سے لوگوں کو ترک سنن کا شبہ ہوگا (ملفوظات حکیم الامت، ۸: ۲۲۷، ملفوظ نمبر: ۲۵۰، مطبوعہ: ادارہ تالیفات اشرفیہ ، ملتان)۔

    عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اجعلوا في بیوتکم من صلا تکم ولا تتخذوہا قبوراً، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، کتاب الصلاة، باب المساجد ومواضع الصلاة، الفصل الأول، ص: ۶۹، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، قولہ: ”من صلا تکم“ قال القرطبي: من للتبعیض، والمراد النوافل بدلیل ما رواہ مسلم من حدیث جابر مرفوعاً إذا قضی أحدکم الصلاة في مسجدہ فلیجعل لبیتہ نصیباً من صلا تہ (فتح الباري،کتاب الصلاة، باب کراہیة الصلاة في المقابر، ۱:۶۸۵، تحت رقم الحدیث: ۴۳۲، ط: دادار السلام الریاض)، والأفضل فی النفل غیر التراویح المنزل إلا لخوف شغل عنھا، والأصح أفضلیة ما کان أخشع وأخلص (الدر المحتار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲: ۴۶۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”والأفضل في النفل“ شمل مابعد الفریضة، وما قبلہا لحدیث الصحیحین: ”علیکم بالصلاة في بیوتکم؛ فإن خیر صلاة المرء في بیتہ إلا المکتوبة“ وأخرج أبو داود ”صلاة المرء في بیتہ أفضل من صلاتہ في مسجدي ھذا إلا المکتوبة“، وتمامہ في شرح المنیة، وحیث کان ہذا أفضل یراعی ما لم یلزم منہ خوف شغل عنہا لو ذہب لبیتہ، أو کان في بیتہ مایشغل بالہ ویقلل خشوعہ فیصلیہا حینئذٍ في المسجد؛ لأن أعتبار الخشوع أرجح( رد المحتار)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند