• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 154293

    عنوان: سنت موٴکدہ کون سی نماز ہے؟

    سوال: عنوان: سنت موٴکدہ کے بدلے قضا نماز (۱) سنت موٴکدہ کون سی نماز ہے؟ (۲) سنت غیر موٴکدہ کون کون سی نماز ہے؟ (۳) سنت موٴکدہ اور سنت غیر موٴکدہ میں فرق کیا ہے؟ (۴) کیا سنت موٴکدہ کو پڑھے بغیر قضا نماز پڑھ سکتے ہیں ؟ یعنی اس کے بدلے فرض نمازوں سے پہلے یا بعد میں قضا پڑھ سکتے ہیں؟ (۵) کیا سنت غیر موٴکدہ کو پڑھے بغیر قضا نماز پڑھ سکتے ہیں؟ یعنی اس کے بدلے قرض نمازوں سے پہلے یا بعد میں قضا پڑھ سکتے ہیں؟ (۶) وہ کون سے کون سے اوقات ہیں جن میں نماز پڑھنا جائز نہیں؟ (۷) کیا ان اوقات میں نماز پڑھنا ناجائز ہے یا پھر حرام ہے؟ (۸) قضا نمازیں کیا ہر وقت پڑھ سکتے ہیں؟ یا پھر اس کا بھی وہی حکم ہے جیسے (طلوع، زوال اور غروب کا)؟ (۹) طلوع کا جو ۲۰/ منٹ کا جو وقفہ ہے، کیا یہ حدیث سے ثابت ہے؟ یا پھر علماء نے احتیاطاً کہا ہے؟

    جواب نمبر: 154293

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1417-1446/N=1/1439

    (۱): سنن موٴکدہ درج ذیل سنتیں ہیں: فجر کی فرض نماز سے پہلے ۲/ رکعت ، ظہر سے پہلے ۴/ رکعت، ظہر کے بعد ۲/ رکعت، مغرب کے بعد ۲/ رکعت،عشا کے بعد ۲/ رکعت ،جمعہ کے دن جمعہ سے پہلے اور جمعہ کے بعد ۴،۴/ رکعت اور رمضان میں تراویح کی ۲۰/ رکعت(در مختار وتعلیم الاسلام وغیرہ)۔

    (۲): سنن غیر موٴکدہ یہ ہیں: عصر سے پہلے ۴/ رکعت، عشا سے پہلے ۴/ رکعت، مغرب کی سنت موٴکدہ کے بعد ۶/ رکعت (اوابین)، عشا کی سنت موٴکدہ کے بعد ۲/ رکعت، جمعہ میں بعد کی ۴/ سنت موٴکدہ کے بعد ۲/ رکعت، نماز وتر کے بعد ۲/ رکعت، تحیة الوضو اور تحیة المسجد کی ۲،۲/ رکعت، چاشت کی ۴یا ۸/ رکعت وغیرہ وغیرہ(در مختار وتعلیم الاسلام وغیرہ)۔

    (۳): سنن موٴکدہ کا بلا عذر شرعی اصرار کے ساتھ ترک کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اور اس کیبارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محرومی کی وعید آئی ہے، جب کہ سنن غیر موٴکدہ کا تارک گنہگار یا قابل ملامت نہیں ہوتا ؛ بلکہ پڑھنے والا ثواب کا مستحق ہوتا ہے اور نہ پڑھنے والے کو کچھ گناہ نہیں ہوتا۔

    قولہ: ”وسن موٴکداً“:أي: استنانا موٴکداً بمعنی أنہ طلب طلباً موٴکداً زیادة علی بقیة النوافل، ولھذا کانت السنة الموٴکدة قریبة من الواجب في لحوق الإثم کما فی البحر، ویستوجب تارکھا التضلیل واللوم کما فی التحریر، أي: علی سبیل الإصرار بلا عذر کما في شرحہ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲:۴۵۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، فی التلویح: ترک السنة الموٴکدة قریب من الحرام یستحق حرمان الشفاعة اھ ومقتضاہ أن ترک السنة الموٴکدة مکروہ تحریماً لجعلہ قریباً من الحرام، والمراد بھا سنن الھدی کالجماعة والأذان والإقامة؛ فإن تارکھا مضلل ملوم کما فی التحریر، والمراد الترک علی وجہ الإصرار بلا عذر (المصدر السابق، أول کتاب الحظر والإباحة، ۹: ۴۸۷)۔

    (۴، ۵): قضا نمازوں کی وجہ سے اصرار کے ساتھ سنن موٴکدہ ترک کرنا درست نہیں، آدمی سنن موٴکدہ بھی پڑھے اور قضا نمازیں بھی؛ البتہ سنن غیرموٴکدہ نہ پڑھ کر قضا نمازیں پڑھنے میں کچھ حرج نہیں۔

     والاشتغال بقضاء الفوائت أولی وأھم من النوافل إلا السنة المعروفة الخ کذا فی المضمرات عن الظھیریة وفتاوی الحجة، ومرادہ بالسنة المعوروفة الموٴکدة(حاشیة الطحطاوی علی المراقي، کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ص،۴۴۷ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، وانظر رد المحتار(۲: ۵۳۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) والفتاوی الھندیة (۱:۱۲۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند) وغیرھما أیضاً۔

    (۶، ۷، ۸): طلوع آفتاب، غروب اور زوال کے وقت کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے، ان اوقات میں کوئی بھی نماز جائز نہیں، اور اگر کسی نے پڑھی تو وہ نماز سرے سے درست ہی نہ ہوگی ؛ البتہ اسی دن کی نماز عصر غروب آفتاب کے وقت کراہت کے ساتھ ہوجاتی ہے ،باقی دیگر تمام اوقات میں قضا نمازیں پڑھ سکتے ہیں؛ البتہ قضا نمازیں عصر کے بعد اور فجر کے وقت مسجد وغیرہ میں نہ پڑھے؛ بلکہ گھر میں پڑھے؛ تاکہ لوگوں کو قضا نمازوں کا علم نہ ہو، اپنا گناہ لوگوں سے حتی الامکان چھپانا چاہیے۔

     وجمیع أوقات العمر وقت القضاء إلا الثلاثة المنھیة(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ۲:۵۲۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ:”إلا الثلاثة المنھیة“:وھي الطلوع والاستواء والغروب،ح (رد المحتار)، وانظر الدر والرد (کتاب الصلاة، ۲: ۳۰-۳۲، ۳۴، ۳۷) أیضاً، وینبغي أن لا یطلع غیرہ علی قضائہ؛ لأن التأخیر معصیة فلا یظھرھا (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ۲: ۵۳۹)،قولہ: ”وینبغي الخ “:تقدم في باب الأذان أنہ یکرہ قضاء الفائتة فی المسجد وعللہ الشارح بما ھنا من أن التأخیر معصیة فلا یظھرھا و ظاھرہ أن الممنوع ھو القضاء مع الاطلاع علیہ سواء کان فی المسجد أو غیرہ، قلت: والظاھر أن ینبغي ھنا الوجوب وأن الکراھة تحریمیة الخ (رد المحتار)، وانظر الدر والرد (۲: ۵۸، ۵۹) والفتاوی الرحیمیة في واقعات السادة الحنفیة (ص ۸، الف، ب، مخطوطة) ۔

    (۹): جب تک سورج مکمل طور پر نکل کر کچھ بلند نہ ہوجائے وہ طلوع ہی کا وقت ہے اور احادیث میں سورج طلوع ہونے کے وقت نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور اس میں عام طور پر ۱۲سے ۱۵/ منٹ کا وقت لگتا ہے اور احتیاطاً ۲۰/ منٹ ہیں، اسی طرح شام کو جب سورج کی تیزی ختم ہوجائے اوراس پر آنکھیں ٹکنے لگیں تو غروب کا وقت شروع ہوجاتا ہے؛ البتہ زوال ایک معمولی سیکنڈ میں ہوجاتا ہے؛ لیکن اس معمولی سکنڈ کا یقین کے ساتھ جاننا مشکل ہے؛ اس لیے احتیاطاً معتبر جنتری کے مطابق ٹھیک وقت زوال سے ۳،، ۴/ منٹ پہلے اور ۳، ۴/ منٹ بعد تک کوئی نمازنہ پڑھی جائے۔

    وما دامت العین لا تحار فیھا فھي في حکم الشروق کما تقدم فی الغروب أنہ الأصح کما فی البحر ح، أقول: وینبغي تصحیح ما نقلوہ عن الأصل للإمام محمد من أنہ ما لم ترتفع الشمس قدر رمح فھي في حکم الطلوع؛ لأن أصحاب المتون مشوا علیہ في صلاة العید حیث جعلوا أول وقتھا من الارتفاع ولذا جزم بہ ھنا فی الفیض ونور الإیضاح (رد المحتار، أول کتاب الصلاة، ۲: ۳۰، ۳۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند