• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 153102

    عنوان: اگر قضائے حاجت کا تقاضا زور کا ہو تو نماز پہلے پڑھیں یا ضرورت پوری كریں؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے اکثر قبض رہتا ہے ۔ اس طرح قضائے حاجت میں کافی دیر لگتی ہے ۔ بعض اوقات دفتر سے گھر ، یا دفتر سے مسجد پہنچنے پر جماعت کا وقت ہو جاتا ہے ۔ یا ۵ ، ۱۰ منٹ باقی رہتے ہیں۔ کبھی کبھی قضائے حاجت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ اگر قضائے حاجت کروں تو جماعت نکل جانے کا اندیشہ ہوتا ہے یا تکبیرِ اولٰی تو فوت ہو جاتی ہے ۔ اس طرح میں جماعت میں شریک ہو جاتا ہوں اور بعد میں قضائے حاجت کرتا ہوں۔ اس سے نماز کے اثر، فضایل میں فرق تو نہیں پڑتا؟

    جواب نمبر: 153102

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1176-1203/sn=12/1438

    اگر قضائے حاجت کا تقاضا زور کا ہو کہ نہ جانے کی صورت میں نماز میں پورا دھیان نہ لگے، ذہن اس میں الجھا رہے تو آپ قضائے حاجت کے بعد ہی نماز پڑھیں، اگرچہ جماعت فوت ہوجائے ورنہ نماز مکروہ ہوگی، اگر اس طرح زور کا تقاضا نہ ہو بس معمولی برائے نام ہو تو پھر شاملِ جماعت ہوجائیں، ان شاء اللہ جماعت کی پوری فضیلت حاصل ہوجائے گی؛ لیکن بہرحال بہتر ہے ہے کہ قضائے حاجت کا نظام الاوقات ایسا بنائیں کہ اچھی طرح فارغ ہوکر مکمل اطمینان کے ساتھ نماز ادا کرسکیں۔

    وصلاتہ مع مدافعة الأخبثین أي البول والغائط قال في الخزائن: سواء کان بعد شروعہ أو قبلہ، فإن شغلہ قعطہا إن لم یخف فوت الوقت وإن أتمّہا إثم․ (رد المحتار علی الدر المختار: ۲/۴۰۸، مطلب في الخشوع، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند