• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 152500

    عنوان: نماز وتر کتنے طریقے سے پڑہنا درست ہے

    سوال: نماز وتر کتنے طریقے سے پڑہنا درست ہے چونکہ میں سعودی میں اور یہاں الگ طریقے سے پڑہتے ہیں اور جب ہم اپنے طریقے سے پڑہتے تو یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ طریقہ غلط ہے میں بچپن سے یہی طریقہ دیکہتے آیا ہوں کہ انڈیا میں لوگ مغرب کی طرح پڑہتے ہیں اور آخر رکعت میں رفع یدین کرتے ہیں لیکن یہاں کے لوگ کہتے ہیں یہ طریقہ صحیح نہیں ہے ... برائے کرم حدیث کی روشنی میں رہنماء فرمائیں۔

    جواب نمبر: 152500

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1103-1083/N=11/1438

     احناف کے نزدیک نماز وتر کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وتر کی تینوں رکعتیں ایک سلام سے پڑھی جائیں، درمیان میں دو رکعت پر سلام نہ پھیرا جائے ، جس طرح مغرب کی تین رکعتیں ایک سلام سے پڑھی جاتی ہیں؛ البتہ مغرب کی تیسری رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے؛ جب کہ وتر میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت وغیرہ بھی ملائی جاتی ہے اور رکوع سے پہلے تکبیر کہہ کر دعائے قنوت بھی پڑھی جاتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز وتر کا یہی طریقہ بیان فرمایا ہے جیسا کہ نسائی شریف کی صحیح روایت میں آیا ہے اور دیگر بعض صحابہ کرامسے بھی وتر کا یہی طریقہ نقل کیا گیا ہے ۔

    وھو -الوتر- ثلاث رکعات بتسلیمة کالمغرب ……ولکنہ یقرأ في کل رکعة فاتحة الکتاب وسورة …… ویکبر قبل رکوع ثالثتہ رافعاً یدیہ…… وقنت فیہ الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب السنن والنوافل، ۲:۴۴۱، ۴۴۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، عن عائشة ”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان لا یسلم في رکعتي الوتر“ رواہ النسائي (۱: ۲۴۸) وسکت عنہ، وفي آثار السنن (۲: ۱۱): إسنادہ صحیح، أخرجہ الحاکم فی المستدرک (۱: ۲۰۴) بلفظ: ” قالت: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یسلم فی الرکعتین الأولیین من الوتر“ وقال: ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین، وأقرہ علیہ الذھبي في تلخیصہ وقال: علی شرطھما اھ، وعنھا قالت: ”کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلاث، لا یسلم إلا في آخرھن “، أخرجہ الحاکم (۱: ۲۰۴) واستشھد بہ وقال: وھذا وتر أمیر الموٴمنین عمر بن الخطاب، وعنہ أخذہ أھل المدینة وسکت عنہ الذھبي في تلخیصہ فھو حسن وکذا نقلہ الزیلعي في نصب الرأیة (۱: ۲۷۷) بلفظ : ”لا یسلم“ وکذا نقلہ الحافظ فی الدرایة (۱۱۴) بلفظ: ”لا یسلم إلا في آخرھن“ وکلاھما عزاہ إلی الحاکم (إعلاء السنن، أبواب الوتر، باب الإیتار بثلاث موصولة وعدم الفصل بینھن بالسلام الخ،۶: ۲۸- ۳۰، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة کراتشي)،عن أبي بن کعبقال: ”کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقرأ فی الوتر ب ﴿سبح اسم ربک الأعلی﴾، وفی الرکعة الثانیة ب ﴿ قل یا أیھا الکافرون﴾، وفی الثانیة ب ﴿قل ھو اللہ أحد﴾، ولا یسلم إلا في آخرھن ویقول یعني: بعد التسلیم: سبحان الملک القدوس ثلاثاً “ أخرجہ النسائي (۱: ۲۴۹) وفي نیل الأوطار (۲: ۲۷۹): رجالہ ثقات إلا عبد العزیز بن خالد وھو مقبول اھ، وفیہ أیضاً (۲: ۲۸۷): قال العراقي: إسنادہ صحیح، وفي آثار السنن:إسنادہ حسن (۲: ۱۰) اھ، وللدار قطني (۱: ۱۷۵) في ھذا الحدیث بإسناد صحیح: ”وإذا سلم قال: سبحان الملک القدوس ثلاث مرات یمد بھا صوتہ فی الأخیرة ، یقول: رب الملائکة والروح “ اھ ، عن المسور بن مخرمة قال: ”دفنا أبا بکر لیلاً فقال عمر: إني لم أوتر فقام وصففنا وراء ہ فصلی بنا ثلاث رکعات لم یسلم إلا في آخرھن“ أخرجہ الطحاوي (۱: ۱۷۳)، وفي آثار السنن: إسنادہ صحیح (۲: ۱۲)، عن عبد الرحمن بن یزید عن عبد اللہ بن مسعودقال: ”الوتر ثلاث کوتر النھار صلاة المغرب“ رواہ الطحاوي (۱: ۱۷۳) وفي آثار السنن (۲: ۱۲): إسنادہ صحیح اھ، قلت: وأخرجہ محمد في موطئہ (ص ۱۴۶) بسند رجالہ رجال مسلم بلفظ: ”الوتر ثلاث کصلاة المغرب“ (المصدر السابق، ص ۴۲- ۴۴)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند