عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 152428
جواب نمبر: 152428
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1196-1243/M=11/1438
ہرعاقل بالغ تندرست شخص پر فرض نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا سنتِ موٴکدہ قریب الواجب ہے، اور بدونِ عذرِ شرعی (مثلاً، بیمار نہ ہو، تیز بارش نہ ہو، سخت تاریک رات نہ ہو، راستہ پر خطر نہ ہو) کے جماعت چھوڑنے والے کے سلسلے میں سخت وعیدیں منقول ہیں، ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو حضرات بلاوجہ جماعت چھوڑتے ہیں میرا دل چاہتا ہے کہ ان کے گھر کو آگ لگادوں“،اس لیے بغیر کسی عذرِ شرعی کے جماعت چھوڑنے سے بچنا ضروری ہے۔ اگر مسجد سے گھر دور ہو، ہروقت مسجد پہنچنا دشوار ہو اور قریب میں کوئی مسجد نہ ہو تو اپنے مقام پر تو جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی پوری کوشش کریں، جماعت کرنا اگر ممکن نہ ہو تو تنہا نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ اور فقہائے کرام نے مسجد سے دوری کی کوئی حد بندی نہیں کی۔ اس لیے کہ لوگوں کے احوال واوقات کے اعتبار سے قرب وبعد کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور حدیث کے اندر آیا ہے کہ بندہ جتنے دور سے مسجد آتا ہے اس کے لیے ہرہرقدم پر ثواب ملتا ہے، اور تنہا نماز پڑھنے کے مقابلے میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے میں ستائیس گنا زیادہ ثواب ملتا ہے۔
وعن جابر․․․ فقال النبي -صلی اللہ علیہ وسلم-․․․ یا بني سلمة: دیارکم تکتب آثارکم، دیارکم تکتب آثارکم۔ (مرقاة المفاتیح: ۲/۳۷۷، فیصل بکڈپو دیوبند)
قال رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم-․․․ لقد ہممت أن آمر بحطب فیحطب․․․․ لا یشہدون الصلاة فأحرق علیہم بیوتہم․ مرقاة المفاتیح: ۳/۱۳۰، فیصل دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند